Yaqeen Aur Bharosa me farq /یقین اور بھروسہ میں فرق
"یہ مضمون" Yaqeen Aur Bharosa me farq" کے درمیان موجود فرق کو ایک سبق آموز کہانی کے ذریعے واضح کرتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ صرف زبان سے اللہ پر یقین کرنے سے بات مکمل نہیں ہوتی، بلکہ جب تک ہم اپنے دل و جان سے اس پر بھروسہ نہ کریں، ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ قرآن کی آیات اور روزمرہ مثالوں کی روشنی میں یہ تحریر دل کو چھونے والا پیغام دیتی ہے۔"
📖 Table of Contents
یہ دو الفاظ بظاہر ایک جیسے لگتے ہیں، لیکن درحقیقت ان دونوں میں ایک گہرا فرق ہے۔ یقین کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کو سچ مان لینا، جبکہ بھروسہ وہ کیفیت ہے جس میں ہم اپنے یقین کو عمل میں لے آتے ہیں۔
زندگی میں ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ لوگ کسی بات پر یقین تو رکھتے ہیں، لیکن جب اس پر عمل کا وقت آتا ہے، تو ان کا بھروسہ ڈگمگا جاتا ہے۔ یہی حال ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے تعلق میں بھی نظر آتا ہے۔ ہم سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ ہی سب کچھ کرنے والا ہے، وہی مشکلات کو دور کرتا ہے، وہی رزق دینے والا ہے، لیکن جب آزمائش آتی ہے تو ہمارا بھروسہ متزلزل ہوجاتا ہے۔
یقین اور بھروسے کی پہچان
ایک آدمی دو بہت اونچی عمارتوں کے درمیان تنی ہوئی رسی پر چل رہا تھا۔ وہ انتہائی مہارت سے اپنے دونوں ہاتھوں میں ایک ڈنڈا پکڑے ہوئے سنبھل کر چل رہا تھا۔ اس کے کندھے پر اس کا بیٹا بیٹھا تھا۔ نیچے زمین پر کھڑے تمام لوگ دم سادھے حیرت سے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔ جب وہ کامیابی سے دوسری عمارت تک پہنچ گیا تو لوگوں نے زور و شور سے تالیاں بجائیں اور اس کی مہارت کی خوب تعریف کی۔
اس شخص نے مسکرا کر لوگوں کی طرف دیکھا اور پوچھا، "کیا آپ کو یقین ہے کہ میں واپس اسی رسی پر چلتے ہوئے دوسری طرف پہنچ جاؤں گا؟"لوگ جوش سے چلا کر بولے، "ہاں! تم یہ کر سکتے ہو!"اس نے پھر پوچھا، "کیا آپ سب کو مجھ پر بھروسہ ہے؟"لوگوں نے بلند آواز میں کہا، "ہاں! ہم تم پر شرط لگا سکتے ہیں!"
یہ سن کر وہ شخص بولا، "اگر واقعی تمہیں مجھ پر بھروسہ ہے، تو کیا تم میں سے کوئی میرے بیٹے کی جگہ میرے کندھے پر بیٹھنے کے لیے تیار ہے؟ میں اسے بحفاظت دوسری طرف لے جاؤں گا!"
یہ سنتے ہی مجمع پر ایک دم خاموشی چھا گئی۔ سب لوگ جوش میں تو کہہ رہے تھے کہ انہیں بھروسہ ہے، مگر جب عمل کا وقت آیا، تو کوئی بھی تیار نہ ہوا۔
Read this also: Gunahon se nijaat ka zariya
یقین اور بھروسہ میں بنیادی فرق
یہی فرق ہے یقین اور بھروسہ میں۔ یقین کا مطلب ہے کہ ہم ذہنی طور پر کسی چیز کو سچ مانتے ہیں، مگر بھروسہ اس سے کہیں آگے کی چیز ہے۔ بھروسہ کرنے کے لیے دل کی گہرائیوں سے خود کو سپرد کرنا پڑتا ہے، خود کو مکمل فنا کرنا پڑتا ہے۔
یہی حال ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے تعلق کا ہے۔ ہم سب اللہ پر یقین رکھتے ہیں، مانتے ہیں کہ وہ رازق ہے، مشکل کشا ہے، مگر جب آزمائش کا وقت آتا ہے، تو ہمارا بھروسہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
"فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ"(آل عمران: 159)"پس جب کسی بات کا پختہ ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ کرو، بیشک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔"
لہٰذا، صرف زبان سے یقین کا اظہار کرنا کافی نہیں، بلکہ اللہ پر مکمل بھروسہ رکھنا اور اپنے تمام معاملات اس کے سپرد کر دینا ہی اصل کامیابی ہے۔
Read this also: Umeed ki Roshni
Conclusion :
Yaqeen Aur Bharosa me farq یہ نازک فرق ہماری روزمرہ زندگی میں بھی بارہا سامنے آتا ہے۔ اکثر ہم اپنے دوستوں، رشتے داروں یا کسی ماہر شخص پر یقین رکھتے ہیں، مگر جب ان پر بھروسہ کرنے کا موقع آتا ہے، تو ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ یہی معاملہ ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے تعلق میں بھی ہے۔ ہم اللہ کے وعدوں پر یقین تو رکھتے ہیں، لیکن جب زندگی میں مشکلات آتی ہیں، تو ہم خود اپنے فیصلے کرنے لگتے ہیں اور اللہ پر مکمل بھروسہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن میں بھروسے کی خوبصورت تلقین کی ہے:
"فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ"(آل عمران: 159)
یہی وہ بھروسہ ہے جو انسان کو خوف، پریشانی اور بے یقینی سے نکال کر ایک پُرسکون اور مطمئن زندگی عطا کرتا ہے۔ اگر ہم اللہ پر بھروسہ کرنا سیکھ لیں، تو ہماری زندگیاں بدل سکتی ہیں۔ اس لیے ہمیں صرف یقین ہی نہیں، بلکہ اللہ پر مکمل بھروسہ کرنا بھی سیکھنا چاہیے، کیونکہ کامیابی انہی لوگوں کے قدم چومتی ہے جو اپنے رب کے فیصلوں پر راضی ہوکر اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like | Comment | Save | Share | Subscribe
FAQs :
سوال 1: یقین اور بھروسے میں کیا بنیادی فرق ہے؟
جواب: یقین کا مطلب ہے کسی چیز کو سچ مان لینا، جبکہ بھروسہ اس یقین پر عمل کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی کہے کہ اسے یقین ہے کہ ایک شخص رسی پر چل سکتا ہے، تو یہ یقین ہے، لیکن جب اسے کہا جائے کہ وہ اس شخص کے کندھے پر بیٹھ کر رسی پار کرے، تو یہ بھروسہ ہوگا۔
سوال 2: ہم اپنی روزمرہ زندگی میں یقین اور بھروسے کا تجربہ کیسے کرتے ہیں؟
جواب: اکثر ہم ڈاکٹر، استاد یا انجینئر پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ ماہر ہیں، لیکن جب اپنی جان، تعلیم یا وسائل ان کے سپرد کرنے کی باری آتی ہے، تو ہمیں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ یہی حال اللہ کے ساتھ بھی ہے، ہم اس پر یقین تو رکھتے ہیں مگر بھروسہ کرنے میں کمزور پڑ جاتے ہیں۔
سوال 3: اللہ پر یقین اور بھروسے میں کیا فرق ہے؟
جواب: اللہ پر یقین کا مطلب ہے کہ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ وہ رازق ہے، مشکل کشا ہے، اور سب کچھ کر سکتا ہے۔ جبکہ اللہ پر بھروسے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر حال میں اس کے فیصلوں پر راضی ہوں اور اپنی زندگی کے معاملات اس کے سپرد کر دیں۔
سوال 4: یقین اور بھروسے کی وضاحت کے لیے قرآن میں کیا فرمایا گیا ہے؟
جواب: قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ" (آل عمران: 159)یعنی جب کسی بات کا پختہ ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو، کیونکہ اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
سوال 5: ہم اپنی زندگی میں اللہ پر بھروسہ کیسے بڑھا سکتے ہیں؟
جواب: نماز اور دعا: اللہ سے تعلق مضبوط کریں اور اس پر بھروسے کی دعا کریں۔
مشکل وقت میں صبر: ہر آزمائش میں اللہ پر بھروسہ رکھیں کہ وہ بہترین راستہ نکالے گا۔
قرآن کی تلاوت: اللہ کے وعدوں کو یاد رکھیں اور اس کے احکامات پر عمل کریں۔
مثبت سوچ: زندگی کے فیصلے اللہ کی حکمت پر چھوڑنے کی عادت ڈالیں۔
سوال 6: کیا ہم دنیاوی معاملات میں بھی بھروسہ کر سکتے ہیں؟
جواب: ہاں، لیکن مکمل بھروسہ صرف اللہ پر ہونا چاہیے۔ دنیاوی معاملات میں کسی شخص پر بھروسہ کرتے وقت حکمت اور عقل کا استعمال ضروری ہے، کیونکہ انسان غلطی کر سکتا ہے، مگر اللہ کی ذات ہمیشہ کامل اور ہر حال میں بھروسے کے لائق ہے۔
Please don't enter any spam link