عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں
یہ تحریر Aadaten Naslon ka Pata deti hain فراست، شناخت اور اصل کی پہچان کی حیران کن کہانی ہے.اسے ضرور پڑھیں.
55
کہتے ہیں کہ انسان کی عادتیں اور اطوار اس کی اصل کو چھپانے نہیں دیتے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ایک بادشاہ کے دربار میں پیش آیا، جہاں ایک اجنبی ملازمت کے لیے حاضر ہوا۔ جب اس کی قابلیت پوچھی گئی تو اس نے خود کو "سیاسی" بتایا، جس کا عربی میں مطلب ہے—معاملہ فہمی اور افہام و تفہیم سے مسائل حل کرنے والا۔
بادشاہ کے دربار میں پہلے ہی سیاست دانوں کی کثرت تھی، اس لیے اسے گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج بنا دیا گیا، کیونکہ وہاں کا پرانا انچارج حال ہی میں فوت ہو چکا تھا۔
Read This Also: Qayamat ka khaufnak manzar Part:1
گھوڑے کی شناخت
چند دن بعد بادشاہ نے اپنے قیمتی اور پسندیدہ گھوڑے کے بارے میں دریافت کیا۔ مصاحب نے جواب دیا، "یہ گھوڑا نسلی نہیں ہے۔"
بادشاہ کو حیرت ہوئی۔ اس نے فوراً ایک پرانے سائیس (گھوڑوں کے پالنے والے) کو بلوایا، جس نے تصدیق کی کہ گھوڑا واقعی نسلی ہے، مگر اس کی ماں پیدائش کے وقت مر گئی تھی، اور یہ ایک گائے کے دودھ پر پلا بڑھا تھا۔
جب مصاحب سے پوچھا گیا کہ اسے یہ کیسے معلوم ہوا، تو اس نے کہا:
"یہ گھوڑا گھاس کھاتے وقت گائیوں کی طرح سر جھکا کر کھاتا ہے، جبکہ اصل گھوڑے گھاس منہ میں لے کر سر اٹھا لیتے ہیں۔"
بادشاہ اس کی فراست سے متاثر ہوا اور اسے انعام میں اناج، اعلیٰ درجے کا گوشت اور دیگر تحائف بھجوائے، ساتھ ہی اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا۔
Read This Also: Ek soch badalne wali kahani:umar ki shahzadi
دوسری آزمائش—ملکہ کی حقیقت
کچھ دنوں بعد بادشاہ نے مصاحب سے ملکہ کے بارے میں رائے مانگی۔ مصاحب نے محتاط الفاظ میں کہا،
"ملکہ کے طور اطوار تو شاہی ہیں، مگر وہ شہزادی نہیں لگتیں۔"
بادشاہ حیران رہ گیا اور اپنی ساس کو بلوایا۔ تب حقیقت سامنے آئی—بادشاہ کے والد نے شادی کے وقت جو رشتہ طے کیا تھا، وہ دراصل کسی اور کی بیٹی تھی کیونکہ اصلی شہزادی بچپن میں وفات پا چکی تھی۔
بادشاہ نے پھر مصاحب سے دریافت کیا کہ اسے یہ کیسے معلوم ہوا؟
اس نے کہا:"ملکہ کا خادموں کے ساتھ سلوک جاہلوں سے بھی بدتر ہے، جبکہ حقیقی شاہی خون میں عاجزی اور رواداری ہوتی ہے۔"
بادشاہ نے اسے مزید انعام و اکرام سے نوازا اور دربار میں شامل کر لیا۔
تیسرا اور سب سے بڑا امتحان(بادشاہ کی اصل)
کچھ وقت گزرا تو بادشاہ نے خود کے بارے میں مصاحب سے سوال کیا:
"میرے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟"
مصاحب نے جان کی امان چاہی، جو بادشاہ نے دے دی، تب اس نے کہا:"نہ تو تم بادشاہ زادے ہو، نہ تمہاری عادات بادشاہوں والی ہیں۔"
بادشاہ کو غصہ تو آیا، مگر وعدے کے مطابق مصاحب کی جان بخشی۔ وہ فوراً اپنی ماں کے محل پہنچا اور حقیقت معلوم کی۔ ماں نے اعتراف کیا کہ وہ حقیقت میں ایک چرواہے کا بیٹا تھا، جسے لاوارث دیکھ کر بادشاہ نے گود لے لیا تھا۔
بادشاہ نے مصاحب سے سوال کیا، "تمہیں کیسے معلوم ہوا؟"
مصاحب نے جواب دیا:
"بادشاہ جب کسی کو انعام دیتے ہیں تو ہیرے، جواہرات اور سونے چاندی کی شکل میں دیتے ہیں، جبکہ آپ بھیڑ بکریاں، کھانے پینے کی اشیاء عطا کرتے ہیں—یہ بادشاہوں کی عادت نہیں، بلکہ چرواہوں کی فطرت ہے۔"
Read This Also: Dusron ke kamzor pahluon ko na chheren
Conclusion:
یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ عادتیں اور اطوار ہمیشہ نسل کا پتہ دیتے ہیں۔ شاہی خون اپنی پہچان خود کراتا ہے، اور اصل کبھی چھپ نہیں سکتی۔ عادات، اخلاق اور طرزِ عمل کسی بھی شخص کی حقیقت کو ظاہر کر دیتے ہیں۔ اگرچہ وقت اور حالات کسی شخص کی پہچان بدل سکتے ہیں، لیکن اس کی حقیقی فطرت کبھی بھی نہیں بدلتی۔ یہی وجہ ہے کہ کہنے والے کہتے ہیں: "Aadaten Naslon ka Pata deti hain۔
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like | Comment | Save | Share | Subscribe
FAQs:
سوال: مصاحب نے گھوڑے کے بارے میں کیسے پہچانا کہ وہ نسلی نہیں؟
جواب: کیونکہ وہ گھاس کھاتے وقت گائیوں کی طرح سر جھکا کر کھاتا تھا، جبکہ اصیل گھوڑا سر اٹھا کر کھاتا ہے۔
سوال: مصاحب نے ملکہ کے بارے میں کیسے جانا کہ وہ شہزادی نہیں؟
جواب: کیونکہ اس کا خادموں کے ساتھ رویہ جاہلوں سے بدتر تھا، جبکہ شاہی خاندان کے افراد نرم مزاج اور روادار ہوتے ہیں۔
سوال: بادشاہ کے بارے میں مصاحب کو کیسے علم ہوا کہ وہ حقیقی بادشاہ زادہ نہیں؟
جواب: کیونکہ وہ قیمتی جواہرات کی بجائے بھیڑ بکریاں اور کھانے پینے کی اشیاء بطور انعام دیا کرتا تھا، جو چرواہوں کی عادت ہوتی ہے۔
*•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*
Please don't enter any spam link