Bichhoo Aur insaan ki Haqeeqat /بچھو اور انسان کی حقیقت
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر جاندار کو ایک فطری محبت اور قربانی کے جذبے کے ساتھ پیدا کیا ہے، خاص طور پر والدین کو۔ چاہے انسان ہو یا جانور، ماں باپ کی محبت اور پرورش کی مثالیں بے شمار ہیں۔ لیکن کچھ مخلوقات ایسی بھی ہیں جن کی فطرت بے رحمی کی عکاس ہوتی ہے، اور ان میں سے ایک مثال بچھو کی ہے۔یہ تحریر Bichhoo Aur insaan ki Haqeeqat اسی سے متعلق ہے جو ہمیں ایک سبق دیگا.
جب بچھو بچے پیدا کرتا ہے، تو وہ اپنی کمر پر انہیں بٹھا لیتا ہے۔ یہ ننھے بچھو کسی اور غذا کے محتاج نہیں ہوتے، بلکہ اپنی ہی ماں کی کمر کا گوشت نوچ نوچ کر کھانے لگتے ہیں۔ ماں کے پاس اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ انہیں روک سکے، لیکن وہ خاموشی سے تکلیف سہتی رہتی ہے، کوئی شکوہ نہیں کرتی، کوئی فریاد نہیں کرتی۔ اس کے بچے اس کا گوشت کھا کر بڑے ہو جاتے ہیں، خود چلنے کے قابل ہو جاتے ہیں، لیکن ماں کمزور ہو کر نڈھال ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ مر جاتی ہے، اور بچے بنا کسی پچھتاوے کے اپنی زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں۔
یہ قدرت کا ایک عجیب مگر دردناک منظر ہے۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو ہمیں یہ احساس ہوگا کہ آج انسانوں میں بھی بچھو کی یہ فطرت آ چکی ہے۔
Read This Also: Achhe Aur Bure Amal
انسان بھی بچھو کے راستے پر چل پڑا؟
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارے والدین ہماری خاطر کیا کچھ نہیں کرتے؟
جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے، تو ماں راتوں کو جاگ کر اس کی دیکھ بھال کرتی ہے، اس کی بھوک، نیند، اور تکلیف کو اپنے سکون پر ترجیح دیتی ہے۔ باپ گرمی، سردی، اور ہر مشکل کا سامنا کرتے ہوئے اپنی اولاد کے لیے رزق کماتا ہے، اسے بہترین تعلیم دلاتا ہے، اس کے اچھے مستقبل کے خواب دیکھتا ہے۔ والدین اپنی تمام خواہشات کو قربان کرکے اپنی اولاد کو ہر ممکن سہولت فراہم کرتے ہیں، اس کی ہر خوشی کے لیے اپنی خوشیوں کو بھول جاتے ہیں۔اپنی جوانی اپنے بچوں کی مستقبل بنانے میں وقف کر دیتے ہیں.
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ، جب یہی اولاد جوان ہو جاتی ہے، کامیابی حاصل کر لیتی ہے، تو بہت سے لوگ اپنے والدین کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ والدین جو کبھی بچوں کی ہر ضرورت کے لیے دوڑتے تھے، وہ آج خود محتاج ہو جاتے ہیں، لیکن ان کی خبر لینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ بڑھاپے میں جب انہیں سب سے زیادہ اپنے بچوں کی محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، تبھی اکثر بچے مصروفیت، دنیاوی کامیابی، اور اپنے مفادات میں گم ہو جاتے ہیں۔ جب کہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب والدین کو اپنے بچوں کے سہارے کی اسد ضرورت ہوتی ہے.
یہاں تک کہ کچھ لوگ والدین کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں، ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے، اور بعض تو انہیں اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آتے ہیں۔ یہ سب کچھ وہی اولاد کرتی ہے، جسے پروان چڑھانے کے لیے والدین نے اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی۔ کیا یہ بالکل بچھو کے بچوں کی طرح نہیں؟
Read This Also: Gunaahon se nijaat ka tareeqa
والدین کا مقام اور مرتبہ:
شریعت میں والدین کے حقوق پر بار بار زور دیا ہے: قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو، اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو ان کے سامنے اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑکو، بلکہ ان سے نرمی اور عزت کے ساتھ بات کرو۔"(سورہ الاسراء: 23)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"والد کی رضا میں اللہ کی رضا ہے اور والد کی ناراضی میں اللہ کی ناراضی ہے۔"(سنن ترمذی: 1899، ابن ماجہ: 3673)"جو شخص صبح کے وقت اپنے والدین کے چہرے کی طرف محبت سے دیکھے، اللہ اس کے لیے مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے۔"(شعب الایمان، حدیث 7831)
والدین کے چہرے کی طرف محبت سے دیکھ لینا بھی مقبول حج کے برابر ثواب رکھتا ہے۔ مگر آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا واقعی ہم اپنے والدین کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں، جس کا ہمیں حکم دیا گیا؟ کہیں ہم بھی بچھو کے بچے تو نہیں بن چکے؟
اللہ ہمیں والدین کی عزت و خدمت کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے:
کیا ہم اپنے والدین کا وہ حق ادا کر رہے ہیں، جس کا ہمیں حکم دیا گیا؟کیا ہم انہیں نظر انداز کرکے یا ان سے سخت رویہ اپنا کر اللہ کی ناراضی کو دعوت نہیں دے رہے؟کیا دنیا کی کامیابی اور مصروفیات ہمیں اپنے والدین کے احسانات بھلانے پر مجبور کر چکی ہیں؟کیا ہماری ترجیحات میں والدین کا مقام وہی ہے، جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمیں سکھایا؟
اپنے والدین کا حق ادا کریں!
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے والدین کو محبت، عزت اور سکون فراہم کریں۔ جب وہ بوڑھے ہو جائیں، تو ان کی ضروریات کو اسی طرح سمجھیں، جیسے وہ ہماری ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے۔ ان سے نرمی سے بات کریں، انہیں وقت دیں، ان کے ساتھ حسن سلوک کریں، اور سب سے بڑھ کر، ان کے لیے دعا کرتے رہیں۔
Read This Also: Umar ki Shahzadi Ek Soch badalne wali Kahani
Conclusion:
آج کے دور میں بہت سے لوگ اپنے والدین کی خدمت کو ایک اضافی ذمہ داری سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ دنیا اور آخرت میں کامیابی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یاد رکھیں! والدین کی خدمت صرف ان کا حق ادا کرنا نہیں، بلکہ یہ ایک عظیم عبادت بھی ہے۔ جو لوگ اپنے والدین کی عزت اور خدمت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے رزق میں برکت دیتا ہے، ان کی زندگی آسان کر دیتا ہے، اور انہیں دنیا و آخرت میں سرخرو کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کی خدمت اور ان کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمیں بچھو کے بچوں جیسا بننے سے محفوظ رکھے۔ آمین!
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like | Comment | Save | Share | Subscribe
*•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*
Please don't enter any spam link