insaan Ki Aazmaish /انسان کی آزمائش
دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں ہر insaan Ki Aazmaish مختلف حالات، مواقع، اور مشکلات کے ذریعے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی کے مختلف مراحل میں آزمائشوں سے گزارنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ یہ پرکھا جا سکے کہ کون صبر، شکر، اور استقامت کے ساتھ اس امتحان میں کامیاب ہوتا ہے۔
ہر ایک اِنسان کو اِس آزمائش سے ہو کر گزرنا ہے یہاں ہر insaan Ki Aazmaish ہونی ہے اور ایسا نہیں کہ اللہ ہمیں آزمانے کے لئے کوئی دوسری زندگی دےگا يا دوسری دنیا میں آزمائے گا بلکہ اسی زِندگی میں اسی دنیا میں ہمیں آزمائےگا.اور وہ آزمائش کہیں بھی ہو سکتی ہے.ہمارے ہی گھر میں اپنوں کے ذریعہ ,رشتےداروں کے ذریعہ,جو دولت کمانے رہے ہیں اُس دولت کے ذریعہ, جو ہمیں اللہ نے صحت اور نعمتیں دی ہے اُن کے ذریعہ. اور اسی کے ذریعہ ہماری کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ ہونے والا ہے.
اللہ تعالیٰ نے ہمیں واضح الفاظ میں بتایا ہے کہ زندگی کا یہ سفر امتحان سے بھرا ہوا ہے۔ آزمائش کبھی خوشحالی میں ہوتی ہے اور کبھی تنگ دستی میں، کبھی صحت میں اور کبھی بیماری میں۔ جو لوگ صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ اللہ کے قریب ہو جاتے ہیں اور آخرت میں کامیابی پاتے ہیں۔
Read this also: Qayamat ka khaufnak manzar Part 1
آگے بڑھنے سے پہلے کچھ خاص باتیں:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک ایسی مخلوق بنایا، جسے اختیار دیا گیا تاکہ وہ صحیح اور غلط کے درمیان فیصلہ کر سکے۔
نوٹ:
اللہ نے انسان کو محض علم اور عقل کی قوتیں دے کر ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ اس کی رہنمائی بھی کی، تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ شکر کا راستہ کون سا ہے اور کفر کا راستہ کون سا ہے۔ اور اس کے بعد جو راستہ بھی وہ اختیار کرے، اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک ایسی مخلوق بنایا، جسے اختیار دیا گیا تاکہ وہ صحیح اور غلط کے درمیان فیصلہ کر سکے۔
اللہ نے ہمیں بتایا ہے کہ آسمانوں، زمین، زندگی اور موت کی تخلیق انسان کو آزمانے کے لیے کی گئی ہے۔ جو کوئی اس کے حکم کی پیروی کرے گا، اسے انعام ملے گا اور جو اس کی نافرمانی کرے گا، اسے سزا دی جائے گی۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، جب کہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ وہ تمہیں آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔"(ہود 11:7)
پھر فرمایا:
"وہ (اللہ) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتا ہے۔"(سورہ الملک: 2)
یہ دنیا انسان کے لیے ایک امتحان گاہ ہے، جہاں اسے اپنے اعمال کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کرنی ہے۔
نوٹ:
اللہ نے انسان کو محض علم اور عقل کی قوتیں دے کر ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ اس کی رہنمائی بھی کی، تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ شکر کا راستہ کون سا ہے اور کفر کا راستہ کون سا ہے۔ اور اس کے بعد جو راستہ بھی وہ اختیار کرے، اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔
سورہ بلد میں اسی مضمون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:"وَہَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِ"(اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دونوں راستے دکھا دیے۔)
ان تمام وضاحتوں کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے، اور قرآن مجید کے ان تفصیلی بیانات کو بھی نگاہ میں رکھا جائے جن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کی ہدایت کے لیے دنیا میں کیا کیا انتظامات کیے ہیں، تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں "راستہ دکھانے" سے مراد رہنمائی کی کوئی ایک ہی صورت نہیں بلکہ بہت سی صورتیں ہیں جن کی کوئی حد نہیں۔ انسان اگر ان سے آنکھیں بند کر لے، یا اپنی عقل سے کام نہ لے، یا ان حقیقتوں کو تسلیم کرنے سے گریز کرے، تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔ اللہ نے اپنی طرف سے حقیقت کی خبر دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
سورہ یٰسین میں اللہ کا فرمان ہے:
"بے شک ہم ایک دن مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں۔ جو کچھ عمل وہ آگے بھیجتے ہیں، وہ سب ہم لکھتے جا رہے ہیں، اور جو کچھ نشان انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں، وہ بھی ہم لکھ رہے ہیں۔ ہر چیز کو ہم نے ایک کھلی کتاب میں لکھ رکھا ہے۔"
اس سے معلوم ہوا کہ امتحان کے بعد ہمیں اپنے اعمال کا حساب بھی دینا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:1. "وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ" (البقرہ: 155)"اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف، بھوک، اور مال، جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔"
2. "أَحَسِبَ ٱلنَّاسُ أَن يُتْرَكُوٓا۟ أَن يَقُولُوٓا۟ ءَامَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ" (العنکبوت: 2)"کیا لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ انہیں صرف یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لائے، اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی؟"
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے تاکہ ان کے صبر، ایمان اور تقویٰ کو پرکھا جا سکے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:1. "إِنَّ عِظَمَ ٱلْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ ٱلْبَلَاءِ، وَإِنَّ ٱللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ٱبْتَلَاهُمْ، فَمَن رَضِيَ فَلَهُ ٱلرِّضَا، وَمَن سَخِطَ فَلَهُ ٱلسُّخْطُ" (سنن الترمذی: 2396)"بڑی آزمائش کے ساتھ بڑا اجر ہوتا ہے، اور جب اللہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزمائش میں ڈالتا ہے، جو راضی ہو جائے اس کے لیے اللہ کی رضا ہے، اور جو ناراض ہو، اس کے لیے ناراضگی ہے۔"2. "مَا يُصِيبُ ٱلْمُؤْمِنَ مِنْ وَصَبٍ وَلَا نَصَبٍ وَلَا سَقَمٍ وَلَا حُزْنٍ حَتَّى ٱلْهَمِّ يُهَمُّهُ إِلَّا كَفَّرَ ٱللَّهُ بِهِ مِنْ خَطَايَاهُ" (صحیح بخاری: 5641)"مسلمان کو جو بھی تکلیف، بیماری، غم، پریشانی، یا اداسی لاحق ہوتی ہے، یہاں تک کہ اگر اسے کوئی فکر بھی لاحق ہو، تو اللہ اس کے گناہوں کا کفارہ کر دیتا ہے۔"
Read this also: Jahannum ke azab aur Sazayein
آزمائش کی مختلف صورتیں
اللہ تعالیٰ انسان کو کئی طریقوں سے آزماتا ہے، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1. مال و دولت کی آزمائش
دولت ایک نعمت بھی ہو سکتی ہے اور آزمائش بھی۔ کچھ لوگوں کو اللہ بے پناہ دولت دے کر آزماتا ہے کہ آیا وہ اسے صحیح راستے پر خرچ کرتے ہیں یا نافرمانی میں ضائع کر دیتے ہیں۔قرآن میں ارشاد ہے:"وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّمَآ أَمْوَٰلُكُمْ وَأَوْلَٰدُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ ٱللَّهَ عِندَهُۥٓ أَجْرٌ عَظِيمٌ" (الأنفال: 28)"اور جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں، اور اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔"
2. غربت اور تنگ دستی کی آزمائش
اللہ کچھ بندوں کو تنگ دستی اور فقر میں مبتلا کرکے آزماتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ وہ صبر کرتے ہیں یا شکایت کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:"أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا ٱلْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوْا۟ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ ٱلْبَأْسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوا۟ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَعَهُۥ مَتَىٰ نَصْرُ ٱللَّهِ أَلَآ إِنَّ نَصْرَ ٱللَّهِ قَرِيبٌ" (البقرہ: 214)"کیا تم نے یہ گمان کر لیا کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے؟ ان پر سختیاں اور مصیبتیں آئیں اور وہ ہلا کر رکھ دیے گئے، یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن لو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔"
3. صحت اور بیماری کی آزمائش
صحت ایک نعمت ہے، اور بیماری ایک آزمائش ہو سکتی ہے۔ اللہ بعض اوقات انسان کو بیماری دے کر آزماتا ہے کہ آیا وہ اللہ پر بھروسہ کرتا ہے یا ناامید ہو جاتا ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:"جب اللہ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے۔" (صحیح بخاری: 5645)
4. خوف اور عدمِ تحفظ کی آزمائش
بعض اوقات اللہ خوف، جنگ، اور ناامنی کے ذریعے بھی آزماتا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ انسان کس حد تک صبر اور ہمت کا مظاہرہ کرتا ہے۔قرآن میں ارشاد ہے:"وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ ٱلْخَوْفِ وَٱلْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ ٱلْأَمْوَٰلِ وَٱلْأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٰتِ ۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّٰبِرِينَ" (البقرہ: 155)"اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف، بھوک، اور مال، جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔"
5. اولاد کی آزمائش
بچے اللہ کی نعمت بھی ہیں اور آزمائش بھی۔ بعض اوقات اللہ نیک اولاد دے کر آزماتا ہے کہ والدین کس طرح ان کی تربیت کرتے ہیں، اور کبھی نافرمان اولاد دے کر آزماتا ہے کہ وہ کس طرح صبر کرتے ہیں۔قرآن میں فرمایا گیا:"إِنَّمَآ أَمْوَٰلُكُمْ وَأَوْلَٰدُكُمْ فِتْنَةٌ وَٱللَّهُ عِندَهُۥٓ أَجْرٌ عَظِيمٌ" (التغابن: 15)"بے شک تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں، اور اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔"
6. اقتدار اور طاقت کی آزمائش
اللہ بعض لوگوں کو اقتدار دے کر آزماتا ہے کہ آیا وہ عدل اور انصاف قائم کرتے ہیں یا ظلم اور ناانصافی کا راستہ اپناتے ہیں۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا:"اقتدار سب سے بڑی آزمائش ہے، کیونکہ انسان خود کو جوابدہی سے آزاد سمجھنے لگتا ہے۔"
7. علم اور جہالت کی آزمائش
علم بھی ایک بڑی آزمائش ہے۔ جو علم رکھنے کے باوجود اس پر عمل نہ کرے، وہ ناکام ہو جاتا ہے، اور جو لاعلمی میں گمراہ ہو جائے، وہ بھی آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:"جس شخص کو اللہ علم دے اور وہ اسے دوسروں تک نہ پہنچائے، قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔" (سنن ابن ماجہ: 261)
Read this also: Achhe aur Bure amal
آزمائش میں کامیابی کا راستہ
اللہ تعالیٰ نے آزمائشوں کا سامنا کرنے کے لیے چند بنیادی اصول بتائے ہیں:
1. صبر اور دعا:
"يَا أَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسْتَعِينُواْ بِٱلصَّبْرِ وَٱلصَّلَوٰةِ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّٰبِرِينَ" (البقرہ: 153)"اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔"2. اللہ پر بھروسہ:
"وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ" (الطلاق: 3)"اور جو اللہ پر بھروسہ کرے، وہ اس کے لیے کافی ہے۔"3. استغفار اور توبہ:
آزمائش گناہوں کا کفارہ بھی بنتی ہے، اس لیے ہر حال میں استغفار کرتے رہنا چاہیے۔4. شکر گزاری:"لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ" (ابراہیم: 7)"اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔"5. اچھے اعمال:
آزمائشوں میں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے نیک اعمال، صدقہ، اور نماز کی پابندی ضروری ہے۔
Conclusion:
اللہ تعالیٰ ہر insaan Ki Aazmaish مختلف انداز میں لیتا ہے، لیکن جو لوگ صبر، شکر، اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں، وہ اس امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ آزمائش اللہ کی طرف سے ایک موقع ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو سدھاریں، اللہ کی قربت حاصل کریں، اور آخرت میں کامیاب ہوں۔
آزمائش دنیا کا ایک لازمی حصہ ہے اور یہاں ہر insaan Ki Aazmaish ہونی ہے ، اور مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کرے۔ جو لوگ آزمائش میں صبر کرتے ہیں، اللہ انہیں عظیم اجر عطا فرماتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر حالت میں اللہ پر بھروسہ رکھیں، دعا کریں اور نیک اعمال کو مضبوطی سے تھامے رکھیں تاکہ ہماری آزمائش ہمارے لیے خیر و برکت کا ذریعہ بنے۔
*•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*
🌸✨🌿 ~ Mohibz Tahiri ~ 🌿✨🌸
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like | Comment | Save | Share | Subscribe
FAQs:
سوال 1: کیا مصیبتیں صرف گناہ گاروں پر آتی ہیں؟
جواب : نہیں، مصیبتیں صرف گناہ گاروں پر نہیں آتیں، بلکہ نیک لوگوں اور انبیاء پر بھی آتی ہیں تاکہ ان کے درجات بلند کیے جائیں۔
سوال 2: اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو آزمائش میں کیوں ڈالتا ہے؟
جواب : تاکہ ان کے صبر، ایمان اور توکل کا امتحان لے اور ان کو مزید روحانی ترقی عطا فرمائے۔
سوال 3: آزمائش اور گناہوں کی سزا میں کیا فرق ہے؟
جواب : آزمائش نیک لوگوں کو بلند کرنے کے لیے آتی ہے جبکہ گناہوں کی سزا انسان کو توبہ اور اصلاح کی طرف لانے کے لیے آتی ہے۔
سوال 4: کیا انبیاء کرام بھی آزمائشوں میں مبتلا ہوئے؟
جواب : جی ہاں، انبیاء کرام سب سے زیادہ آزمائشوں میں ڈالے گئے تاکہ وہ انسانوں کے لیے صبر اور توکل کی اعلیٰ مثال بنیں۔
جواب : نہیں، مصیبتیں صرف گناہ گاروں پر نہیں آتیں، بلکہ نیک لوگوں اور انبیاء پر بھی آتی ہیں تاکہ ان کے درجات بلند کیے جائیں۔
سوال 2: اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو آزمائش میں کیوں ڈالتا ہے؟
جواب : تاکہ ان کے صبر، ایمان اور توکل کا امتحان لے اور ان کو مزید روحانی ترقی عطا فرمائے۔
سوال 3: آزمائش اور گناہوں کی سزا میں کیا فرق ہے؟
جواب : آزمائش نیک لوگوں کو بلند کرنے کے لیے آتی ہے جبکہ گناہوں کی سزا انسان کو توبہ اور اصلاح کی طرف لانے کے لیے آتی ہے۔
سوال 4: کیا انبیاء کرام بھی آزمائشوں میں مبتلا ہوئے؟
جواب : جی ہاں، انبیاء کرام سب سے زیادہ آزمائشوں میں ڈالے گئے تاکہ وہ انسانوں کے لیے صبر اور توکل کی اعلیٰ مثال بنیں۔
Please don't enter any spam link