جہنم سے آزاد آنکھیں/Jahannum se aazad aankhen
Jahannum se aazad aankhen |
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ میں دو قسم کی آنکھوں کا ذکر ہے جنہیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ اور انہیں Jahannum se aazad aankhen کہا گیا ہے.دو قسم کی آنکھیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں جہنم کی آگ نہیں چھوسکتی۔ پہلی آنکھ وہ ہے جو اللہ کے خوف سے اشک بار ہو اور دوسری وہ آنکھ جو اللہ کے راستے میں پہرہ دے.
آئیے وہ حدیث دیکھیں, نبی کریمﷺ نے فرمایا:"دو آنکھیں ایسی ہیں جنہیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی: ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے روئی ہو، اور دوسری وہ آنکھ جو اللہ کے راستے میں پہرہ دیتے ہوئے جاگتی رہی ہو۔"
(جامع ترمذی: 1639، مسند احمد: 14334)
اللہ کے خوف سے رونے والی آنکھ:
ایسی آنکھ جو اللہ کے خوف اور خشیت سے آنسو بہائے، وہ دل کی پاکیزگی اور اللہ کے ساتھ گہرے تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ قرآن میں اللہ سے ڈرنے اور خشیت اختیار کرنے کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے:
"اور جو لوگ اپنے رب کے خوف سے ڈرتے ہیں..."(سورۃ المؤمنون: 57)اسلاف کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، وہ تنہائی میں جہنم کی ہولناکی، موت کی سختی، اور میدان محشر کی افراتفری کا تصور کر کے روہانسے ہو جاتے تھے، جس کے نتیجے میں اللہ نے ان کے دلوں کو نرم کر دیا تھا۔ لیکن آج ہمارا حال اس کے برعکس ہے؛ ہمارے دل سخت ہو چکے ہیں، ہماری آنکھیں اللہ کی یاد میں نہیں روتیں، اور ہم اپنے سامنے پیش آنے والے حادثات کو دیکھ کر بھی بے پرواہ رہتے ہیں۔ اس کا سبب دلوں کی سختی ہے، جو ہمیں اللہ سے دور لے جا رہی ہے۔
ایسے آنسو انسان کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتے ہیں اور اس کے دل کو نرم کرتے ہیں، جس سے انسان کی روحانی ترقی ہوتی ہے۔
Read This Also: Sadqa karne ke fayede
اللہ کے راستے میں پہرہ دینے والی آنکھ:
وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جہاد، سرحدوں کی حفاظت یا دین کی خدمت کے لیے جاگتی رہے، اس کی عظمت اور قربانی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سراہا ہے۔ یہ عمل دین کے دفاع اور امت مسلمہ کی حفاظت کے لیے ہے، جو ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ قرآن مجید میں بھی ایسے لوگوں کی تعریف کی گئی ہے:
"اور جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں..."(سورۃ الصف: 4)
یعنی دوسری آنکھ وہ ہے جو حدود اسلامیہ کی محافظ ہو، مسلمانوں کی سرحدوں کی حفاظت کرے، اور ان کے جان و مال کی رکھوالی کرے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جیسے دودھ کو تھن سے نکالنے کے بعد واپس نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح اللہ کے خوف سے رونے والا جہنم میں نہیں جا سکتا۔ حدیث دیکھیے.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جو واپس نہیں آتیں: تیر جب کمان سے نکل جائے، بات جب زبان سے نکل جائے، اور دودھ جب تھن سے نکل جائے۔"(مسند احمد: 10583)
اِس حدیث سے اور بھی کُچّھ وضاحتیں ہو رہی ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حدیث میں انسان کو ان چیزوں کے بارے میں خبردار فرما رہے ہیں جن پر قابو پانا ممکن نہیں رہتا جب وہ ایک بار انجام پا جائیں۔
دودھ تھن سے نکلنے کے بعد واپس نہیں جا سکتا:
جیسے دودھ کو ایک بار تھن سے نکال لیا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح انسان کے بعض اعمال اور الفاظ بھی ایسے ہیں جن کا اثر واپس لینا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ مثال ہمیں محتاط رہنے کی نصیحت کرتی ہے کہ کوئی بھی عمل کرنے یا بات کہنے سے پہلے اس کے انجام پر غور کریں۔یہاں خاص طور پر "دودھ کا تھن سے نکلنے" کی مثال دی گئی ہے، جو نہایت جامع اور بصیرت سے بھرپور ہے
بات جب زبان سے نکل جائے:
زبان سے نکلی بات یا الفاظ اگر نامناسب ہوں تو ان کے اثرات کو ختم کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید اور احادیث میں زبان کے استعمال میں احتیاط برتنے پر زور دیا گیا ہے:"انسان جو بھی بات کہتا ہے، اس پر ایک نگران موجود ہوتا ہے جو اسے لکھ لیتا ہے۔"(سورۃ ق: 18)
عمل اور فیصلہ:
جب کوئی عمل یا فیصلہ کیا جائے، تو اس کے نتائج پر قابو پانا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے عمل سے پہلے خوب سوچ سمجھ لینا چاہیے تاکہ ندامت سے بچا جا سکے۔
اِس سے کیا سبق ملتا ہے ہمیں:یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ الفاظ اور اعمال میں احتیاط برتنی چاہیے کیونکہ ایک بار یہ انجام پا جائیں تو ان کے اثرات کو ختم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کسی بھی بات یا کام سے پہلے اس کے نتائج پر غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے,غور کرنا ایک سمجھدار انسان کی نشانی ہے۔
خلاصہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مثال ہمارے لیے ایک نصیحت ہے کہ ہم اپنی زندگی میں محتاط، سمجھدار اور ذمہ دار بنیں تاکہ کسی عمل یا بات پر ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اِس طرح یہ ایک بڑی ضمانت ہے ان آنکھوں کے لیے جو خشیت الٰہی سے اشک بار ہوتی ہیں۔ اسی طرح اللہ کی راہ میں چلنے کا غبار اور جہنم کا دھواں کبھی جمع نہیں ہو سکتا۔ یعنی اگر کوئی شخص حصول علم کے لیے سفر کرتا ہے، یا اللہ کے دین کو پھیلانے کے لیے کسی بستی کی طرف روانہ ہوتا ہے، یا اسلام کی حفاظت کے لیے میدان جنگ میں نکلتا ہے، تو اس محنت و مشقت کی وجہ سےاس کے جسم پر لگی دھول و مٹی تک جہنم کی آگ کا دھواں نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ کے راستے میں کوشاں رہنے والوں کے لیے یہ ایک عظیم انعام ہے ۔حدیث رسول ہے کہ جس دن الله کے عرش کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا اس دن خیشت الہی سے رونے والے کو اللہ اپنے عرش کے سایے میں جگہ دےگا
Read This Also: Musalman Aur Naya Saal
دو قطرے اور دو نشان اللہ کو بے حد پسند ہیں
، ابوامامہ رضی الله عنہ سے حسن حدیث ہے کہ الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"دو قطرے اور دو نشان اللہ کو بے حد پسند ہیں: ایک آنسو کا قطرہ جو اللہ کے خوف اور خشیت میں بہے، اور دوسرا خون کا قطرہ جو اللہ کی راہ میں بہایا جائے۔ اور دو نشان بھی اللہ کو پسند ہیں: ایک وہ جو اللہ کی راہ میں زخم سے پیدا ہو، اور دوسرا وہ نشان جو اللہ کی عبادت میں لگنے والے مشقت کے نتیجے میں ہو۔"(مستدرک حاکم، اور اس حدیث کو حسن قرار دیا گیا ہے)
جیسا کہ صحابہ کرام کے جسموں پر میدان جنگ میں لگے ہوئے نشانات تھے، دوسرا جب بندہ الله کی عبادت تسلسل کے ساتھ کرتا ہے تو اسکے جسم پر مختلف قسم کے نشان آتے ہیں پیشانی، گھٹنوں وغیرہ پر یہ دو نشانات وقطرات الله کو پسند ہیں،
وضاحت:
. آنسو کا قطرہ:یہ وہ آنسو ہیں جو اللہ کے خوف، محبت، یا خشیت میں بہائے جائیں۔ ایسے آنسو انسان کے دل کی پاکیزگی اور اللہ کے ساتھ اس کے گہرے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔قرآن میں اللہ سے ڈرنے والوں کی تعریف کی گئی ہے:"اور جب ان کے رب کا ذکر کیا جاتا ہے، تو ان کے دل خوف سے کانپ جاتے ہیں۔"(سورۃ الزمر: 23)ایسے آنسو گناہوں کی معافی اور دل کی نرمی کا سبب بنتے ہیں۔2. خون کا قطرہ:یہ وہ خون ہے جو اللہ کی راہ میں، چاہے جہاد کے دوران ہو یا دین کی خدمت میں، بہایا جائے۔قرآن مجید میں فرمایا گیا:"اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔"(سورۃ البقرہ: 154)3. زخم کا نشان:یہ وہ نشان ہیں جو اللہ کی راہ میں قربانی دیتے ہوئے جسم پر لگیں، مثلاً جہاد یا دین کی خدمت کے دوران زخمی ہونا۔یہ نشان اللہ کے راستے میں جدوجہد کی گواہی ہیں اور قیامت کے دن انسان کے درجات کی بلندی کا سبب بنیں گے۔4. عبادت کی مشقت کا نشان:یہ نشان ان لوگوں پر ہوتے ہیں جو عبادت، نماز، روزہ یا دیگر نیکیوں میں محنت اور قربانی دیتے ہیں۔ مثلاً سجدوں کے نشانات یا کسی عمل میں لگنے والی تھکن۔قرآن میں عبادت گزاروں کی تعریف ہے:"ان کے چہروں پر سجدوں کے اثرات نمایاں ہیں۔"(سورۃ الفتح: 29)
سبق:
روحانی تعلق: اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کریں اور اس کی محبت اور خوف کو اپنے دل میں پیدا کریں تاکہ خشوع و خضوع سے آنسو بہیں۔عملی قربانی: دین کی راہ میں اپنی جان و مال سے قربانی دینے کے لیے تیار رہیں۔عبادت کی اہمیت: اللہ کی عبادت اور دین کی خدمت میں آنے والی مشقت کو خوش دلی سے قبول کریں کیونکہ یہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔یہ حدیث ہمیں روحانی اور عملی دونوں پہلوؤں میں اللہ کی رضا کے حصول کی ترغیب دیتی ہے۔ آنسو اور خون، اور عبادت اور قربانی کے نشانات، سب اللہ کے ہاں مقبول ہیں اور انسان کی کامیابی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
Read This Also: Achhe Aur Bure Amal
کہیں ہم غافلوں میں تو نہیں:
ہم آخرت کی یاد سے غافل ہیں۔ سوشل میڈیا کی وبا ہمیں اپنے سحر میں جکڑ چکی ہے، جس پر ہم وقت ضائع کرتے ہیں۔ تنہائی میں اللہ کو یاد کرنے کا وقت بھی نہیں رہا، اور ہمارے دل اتنے سخت ہو گئے ہیں کہ جب قرآن کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں، تو ہم پر ان آیات کا ذرا سا بھی اثر نہیں ہوتا، حصول دنیا کی فکر نے ہمیں دین سے غافل کردیاہے۔
Download azkaar pdf
Conclusion:
یہ احادیث انسان کو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے مختلف راستے دکھاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو وہ آنکھیں پسند ہیں جو اس کے خوف سے روئیں اور وہ قربانی قبول ہے جو اس کے دین کی خدمت میں دی جائے۔ زبان اور اعمال میں احتیاط، خشیتِ الٰہی کے آنسو، اور دین کی راہ میں دی گئی قربانی نہ صرف دنیا میں سکون کا ذریعہ ہیں بلکہ آخرت میں کامیابی کی ضمانت بھی ہیں۔ یہ تعلیمات ہمیں روحانی پاکیزگی، عمل کی گہرائی، اور ذمہ داری کا شعور دیتی ہیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کے راستے میں کی جانے والی جدوجہد، علم کا حصول، اور دین کی خدمت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔نتیجتا روح کی شادابی کے ساتھ اللہ کی رضا اور مغفرت بھی حاصل ہوگی۔ ہمیں ان آنکھوں میں شامل ہونے کی دعا کرنی چاہیے جو Jahannum se aazad aankhen ہیں۔ جنہیں اللہ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہے۔ اللہ ہمیں اپنی رحمت سے نوازے، ہمیں اپنے کلام کی تلاوت کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کے راستے میں کی جانے والی جدوجہد، علم کا حصول، اور دین کی خدمت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔نتیجتا روح کی شادابی کے ساتھ اللہ کی رضا اور مغفرت بھی حاصل ہوگی۔ ہمیں ان آنکھوں میں شامل ہونے کی دعا کرنی چاہیے جو Jahannum se aazad aankhen ہیں۔ جنہیں اللہ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہے۔ اللہ ہمیں اپنی رحمت سے نوازے، ہمیں اپنے کلام کی تلاوت کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like comment save share subscribe
FAQs:
سوال 1: وہ کون سی دو آنکھیں ہیں جنہیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی؟
جواب: ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے روئے اور دوسری وہ جو اللہ کے راستے میں پہرہ دیتے ہوئے جاگتی رہی ہو۔
سوال 2: اللہ تعالیٰ کو دو قطرے کون سے پسند ہیں؟
جواب:وہ آنسو کا قطرہ جو اللہ کے خوف اور خشیت میں بہے۔ وہ خون کا قطرہ جو اللہ کی راہ میں بہایا جائے۔
سوال 3: اللہ کو دو نشان کون سے پسند ہیں؟
جواب:وہ نشان جو اللہ کی راہ میں زخمی ہونے سے پیدا ہو۔ وہ نشان جو اللہ کی عبادت اور مشقت کے نتیجے میں ظاہر ہو۔
سوال 4: وہ تین چیزیں کون سی ہیں جو واپس نہیں آتیں؟
جواب:تیر جب کمان سے نکل جائے۔بات جب زبان سے نکل جائے۔ دودھ جب تھن سے نکل جائے۔
سوال 5: اللہ کے خوف سے رونے والے آنسو کی کیا اہمیت ہے؟
جواب: اللہ کے خوف سے رونے والے آنسو انسان کے دل کی پاکیزگی، گناہوں کی معافی، اور اللہ کے ساتھ تعلق کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ آنسو قیامت کے دن اللہ کی رحمت کا ذریعہ بنیں گے۔
سوال 6: دین کی راہ میں قربانی دینے کا کیا اجر ہے؟
جواب: دین کی راہ میں قربانی دینے والا اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے خون کا ہر قطرہ اور زخم کا ہر نشان آخرت میں درجات کی بلندی اور جنت میں داخلے کا سبب بنے گا۔
Please don't enter any spam link