Nabi Kareem ﷺ par darood padhna/نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنا
درود و سلام کی بہت بڑی اہمیّت اور فضیلت قرآن اور احادیث میں وارد ہوئی ہے.Nabi Kareem( ﷺ) par darood padhna اور وہ بھی کثرت سے پڑھنا سب سے افضل اور بہتر عمل ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور ایسا کرنے والوں کی تعریف کی ہے۔ اس عمل کو مغفرت، بخشش اور حاجتوں کے پورا ہونے کا سبب بنایا ہے۔ اور درود پڑھنے والوں کو قیامت کے دن نبی ﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی۔
درود یا صلوات کا مطلب کیا ہے؟
درود یا صلوات کے معنی اس پر منحصر ہیں کہ کون اسے پڑھ رہا ہے یا بھیج رہا ہے اور کس کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ مثلاً:
جب کہا جاتا ہے کہ اللہ محمد ﷺ پر صلوات بھیجتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ان پر رحمت نازل فرماتا ہے۔
جب کوئی شخص محمد ﷺ پر صلوات بھیجتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کے لیے رحمت اور سلامتی کی دعا کرتا ہے۔
جب ملائکہ (فرشتے) محمد ﷺ پر صلوات بھیجتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔
Read This: Jahannum se Aazad aankhen
درود کے متعلق اللہ کا فرمان:
قرآن کریم میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا ﴿56﴾
اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور فرشتے نبی ﷺ پر رحمتیں بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان (نبی ﷺ) پر درود و سلام بھیجا کرو۔(سورۃ الاحزاب: 56)
نبی ﷺ پر درود کیسے بھیجیں؟
صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم آپ ﷺ پر کس طرح درود بھیجا کریں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس طرح کہا کرو:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
"اے اللہ! محمد ﷺ اور آل محمد پر درود بھیج، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم پر درود بھیجا۔ بے شک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! محمد ﷺ اور آل محمد پر برکت نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم پر برکت نازل فرمائی۔ بے شک تو قابل تعریف اور بزرگی والا
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا:
"کیوں نہ میں تمہیں ایک تحفہ دوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا؟"میں نے کہا: "جی ہاں، مجھے یہ تحفہ ضرور عنایت فرمائیے۔"
انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا:
"یا رسول اللہ! ہم آپ پر اور آپ کے اہلِ بیت پر کس طرح درود بھیجا کریں؟ اللہ تعالیٰ نے سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں خود سکھا دیا ہے۔"
آپ ﷺ نے فرمایا:
ﺍﻟـﻠَّـﻬُـﻢَّ ﺻَـﻞِّ ﻋَـﻠَـﻰ ﻣُـــﺤَـــﻤَّـــﺪٍﷺ ﻭَ ﻋَـﻠَـﻰ ﺁﻝِﻣُـــﺤَـــﻤَّـــﺪٍﷺ ﻛَـﻤَـﺎ ﺻَـﻠَّـﻴْـﺖَ ﻋَـﻠَـﻰ ﺇِﺑْـﺮَﺍﻫِـﻴـﻢَ ﻭَﻋَـﻠَـﻰ ﺁﻝِ ﺇِﺑْـــﺮَﺍﻫِـــﻳـــﻢَ ﺇِﻧَّـﻚَ ﺣَـﻤِـﻴـﺪٌ ﻣَـــﺠِــﻴــﺪٌ
ﺍﻟـﻠَّـﻬُـﻢَّ ﺑَـﺎﺭِﻙْ ﻋَـﻠَـﻰ ﻣُـــﺤَـــﻤَّـــﺪٍﷺ ﻭَ ﻋَـﻠَـﻰ ﺁﻝِﻣُـــﺤَـــﻤَّـــﺪٍﷺ ﻛَـﻤَـﺎ ﺑَـﺎﺭَﻛْـﺖَ ﻋَـﻠَـﻰ ﺇِﺑْــﺮَﺍﻫِــﻴــﻢَ ﻭَﻋَـﻠَـﻰ ﺁﻝِ ﺇِﺑْــﺮَﺍﻫِــﻴــﻢَ ﺇِﻧَّـﻚَ ﺣَـﻤِـﻴـﺪٌ ﻣَـــﺠِــﻴــﺪٌ
"اے اللہ! محمد ﷺ اور آلِ محمد پر درود بھیج، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آلِ ابراہیم پر درود بھیجا۔ بے شک تو قابلِ تعریف اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! محمد ﷺ اور آلِ محمد پر برکت نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آلِ ابراہیم پر برکت نازل فرمائی۔ بے شک تو قابلِ تعریف اور بزرگی والا ہے۔"( صحیح بُخاری:3369/3370)
آپ ﷺ پر درود بھیجنے کی فضیلت:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان:
"دعا آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتی ہے، اس میں سے کچھ بھی اوپر نہیں جاتا جب تک کہ تم اپنے نبی ﷺ پر درود نہ بھیجو۔"(جامع ترمذی)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا، اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کی دس غلطیاں معاف کر دی جائیں گی، اور اس کے دس درجات بلند کیے جائیں گے۔"(سنن نسائی: 1298)
صحیح مسلم میں نبی ﷺ کا فرمان ہے:
"جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔"
بخیل کون ہے؟
نبی ﷺ نے فرمایا:"بخیل وہ شخص ہے جس کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔"
(جامع ترمذی)
فرشتے سلام پہنچاتے ہیں:
آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے زمین پر چلتے پھرتے ہیں اور وہ میری امت کا سلام مجھے پہنچاتے ہیں۔"(سنن نسائی)
سلام کا جواب:
نبی ﷺ نے فرمایا:"جب کوئی شخص مجھے سلام کہتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ میری روح مجھے واپس لوٹا دیتا ہے تاکہ میں اس کے سلام کا جواب دوں۔"
قیامت کے دن شفاعت:
"جو شخص صبح و شام دس مرتبہ مجھ پر درود بھیجے گا، اسے قیامت کے دن میری شفاعت حاصل ہوگی۔"(طبرانی)
اہلِ بیت پر درود:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اہلِ بیت پر درود پڑھتے وقت مکمل اجر حاصل کرے، وہ یہ درود پڑھے:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النبي، وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ،وَذُرِّيَّتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔(سنن ابو داؤد)
حضرت موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا:
"میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:'مجھ پر درود پڑھو اور خوب کوشش سے دعا کرو اور کہو:اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
(اے اللہ! محمد ﷺ اور آلِ محمد پر خصوصی رحمتیں نازل فرما)۔'"(سنن نسائی:1293)
Read This: Musalman Aur Naya Saal
کثرت سے درود پڑھنے کی فضیلت:
قیامت کے دن قربت:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"قیامت کے دن میرے قریب ترین شخص وہ ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجتا ہوگا۔"
(جامع ترمذی، مشکوٰۃ المصابیح: 923)
اللہ کی دس رحمتیں:
رسول کریم ﷺ نے فرمایا:"جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔"(صحیح مسلم: 384)
جمعہ کے دن کی فضیلت:
حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"بے شک تمہارے دنوں میں سب سے بہتر دن جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے، اسی دن ان کا انتقال ہوا، اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور بے ہوشی ہوگی۔ لہٰذا اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو۔ یقیناً تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔"
صحابہ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! آپ پر درود کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ (وفات کے بعد) مٹی میں مل چکے ہوں گے؟"
آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے۔"
(سنن نسائی: 1375)
دعا میں درود کی کثرت کا اجر:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا:
"یا رسول اللہ ﷺ! میں آپ پر کثرت سے درود پڑھتا ہوں، تو اپنی دعا میں آپ پر کتنا درود شامل کروں؟"
آپ ﷺ نے فرمایا: "جتنا چاہو۔"
انہوں نے عرض کیا: "ایک چوتھائی کافی ہے؟"
آپ ﷺ نے فرمایا: "جتنا چاہو، لیکن اگر زیادہ کرو گے تو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔"
انہوں نے عرض کیا: "آدھا کر لوں؟"
آپ ﷺ نے فرمایا: "جتنا چاہو، اور اگر زیادہ کرو گے تو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔"
انہوں نے عرض کیا: "دو تہائی کر لوں؟"
آپ ﷺ نے فرمایا: "جتنا چاہو، اور اگر زیادہ کرو گے تو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔"
انہوں نے عرض کیا: "تو پھر میں اپنی پوری دعا میں ہی آپ پر درود پڑھوں؟"
آپ ﷺ نے فرمایا:
"پھر یہ درود تمہارے غموں اور پریشانیوں کے لیے کافی ہوگا اور تمہارے گناہوں کی بخشش کا سبب بنے گا۔"(سنن ترمذی: 2457)
خلاصہ:
درود شریف پڑھنے سے قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کی قربت، اللہ کی رحمت، گناہوں کی معافی، اور دعا کی قبولیت جیسی عظیم برکتیں حاصل ہوتی ہیں۔ کثرت سے درود پڑھنے کی عادت ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی سے نوازتی ہے۔
درود شریف کے بارے میں علمائے کرام اور ائمہ کے اقوال
ابن قیم رحمہ اللہ کا قول:
ابن قیم رحمہ اللہ "جَلاَ الأَفْهَام" میں لکھتے ہیں:
"ہمارے استاد ابو العباس (یعنی ابن تیمیہ رحمہ اللہ) سے اس حدیث کی شرح کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا:
حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے ایک مخصوص دعا مقرر کر رکھی تھی۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی دعا کا ایک چوتھائی حصہ آپ ﷺ پر درود کے لیے مخصوص کر سکتے ہیں؟"
کیونکہ جو شخص نبی کریم ﷺ پر ایک بار درود پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ درود پڑھنے سے اس کے غم و پریشانی دور ہو جاتی ہے اور اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
(جَلاَ الأَفْهَام، ص: 79)
"تحفۃ الأحوذی" میں وضاحت:
تحفۃ الأحوذی میں ملّا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"فَكَمْ أَجْعَلُ لَك مِنْ صَلَاتِي"
(یعنی میں اپنی دعا میں سے آپ ﷺ پر کتنا درود بھیجوں؟)
یہ وضاحت ہے کہ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے اپنی دعا میں آپ ﷺ کے لیے درود شامل کرنے کا تناسب پوچھا تھا، اور اس کے نتیجے میں انہیں مکمل دعا درود میں تبدیل کرنے کا مشورہ دیا گیا۔
منذری رحمہ اللہ کا قول:
"الترغیب" میں منذری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنی دعا میں سے آپ ﷺ پر درود کا کتنا حصہ رکھوں؟"
جب حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا:
"قُلْتُ أَجْعَلُ لَك صَلَاتِي كُلَّهَا"
(میں نے عرض کیا: میں اپنی تمام دعا آپ ﷺ پر درود کے لیے مخصوص کر دوں گا)
یعنی جتنا وقت وہ اپنی دعا کے لیے مقرر کرتے تھے، وہ سارا وقت آپ ﷺ پر درود کے لیے مختص کر دیا۔
تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ، وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ"
(پھر یہ تیرے غم اور پریشانی کے لیے کافی ہوگا اور تیرے گناہ معاف کر دیے جائیں گے)
خلاصہ:
درود شریف کے بارے میں ائمہ اور علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ یہ ایک عظیم عمل ہے جو دنیاوی اور اخروی کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔ درود شریف پڑھنے سے غم و پریشانی دور ہوتی ہے، دعائیں قبول ہوتی ہیں، اور گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔
الہام اور درود کی اہمیت پر علما کے اقوال
الہام کی تشریح:
الہام اس کیفیت کو کہتے ہیں جب انسان دنیا اور آخرت میں کسی چیز کا ارادہ کرے۔ اگر کوئی شخص اپنی دعا کا سارا وقت نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے میں صرف کرے تو اسے دنیا اور آخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا قول:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے انسان اپنے لیے فائدہ اور بھلائی طلب کرتا ہے اور نقصان سے بچتا ہے۔ دعا کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی مراد کو حاصل کرے اور مشکلات کو دور کرے۔"(الرد علی البکری، 1/133)
"المصابیح" کے شارحین کا بیان:
"نبی کریم ﷺ نے دعا میں درود کی کوئی حد مقرر نہیں کی تاکہ زیادہ درود کا دروازہ بند نہ ہو۔ بلکہ اس میں انسان کو آزادی دی گئی۔ جب ایک صحابی نے عرض کیا: 'میں اپنی تمام دعا آپ پر درود کے لیے وقف کر دیتا ہوں۔' تو نبی ﷺ نے فرمایا:
'یہ تمہارے ہر غم اور پریشانی کے لیے کافی ہوگا اور تمہیں دین و دنیا میں کامیابی دے گا۔'
درود اللہ کے ذکر اور نبی ﷺ کی تعظیم کا مظہر ہے، اور حقیقت میں یہ اپنے لیے دعا کا بہترین ذریعہ ہے۔"
(السخاوی، "القول البدیع"، صفحہ 133)
قیامت کے دن درود کی فضیلت:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"قیامت کے دن میرے سب سے قریب وہ شخص ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجے گا۔"
(سنن ترمذی، حدیث نمبر 484)
اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے "صحیح الترغیب و الترہیب" میں حسن قرار دیا ہے۔
خلاصہ:
درود شریف نہ صرف نبی کریم ﷺ کی تعظیم اور اللہ کے ذکر کا بہترین ذریعہ ہے بلکہ یہ انسان کے ہر غم اور پریشانی کو دور کرنے اور گناہوں کی معافی کا سبب بھی ہے۔ مزید برآں، قیامت کے دن نبی ﷺ کے قریب ہونے کا ذریعہ بھی ہے۔
تُفَہُ الْاَہْوَزِی" میں درود پر شفاعت کی فضیلت:
"تُفَہُ الْاَہْوَزِی" میں ذکر ہے:"أولى الناس بي"
یعنی میرے سب سے قریب یا میری شفاعت کا سب سے زیادہ حق دار وہ شخص ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود پڑھے۔ درود کی کثرت تعظیم پر مبنی ہے، اور یہ مکمل محبت کا نتیجہ ہے، جس کے نتیجے میں اتباع (پیروی) اور اطاعت کا مطالبہ ہوتا ہے، اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری (محمد ﷺ) کی اتباع کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔"
اس سے یہ واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنے کی فضیلت پر کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ آپ جتنا زیادہ درود پڑھیں گے، آپ کی نبی ﷺ سے محبت اتنی ہی زیادہ ہوگی، اور آپ کا قرب بھی اتنا ہی بڑھ جائے گا۔
درود پڑھنے کے لئے تعداد کا تعین:
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنا قرب اور عبادت ہے، اس کے لئے کسی خاص تعداد کا تعین کرنا جائز نہیں ہے۔ شریعت میں اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے، چاہے وہ ایک ہزار ہو، دو ہزار ہو، یا تین ہزار ہو، یہ سب صوفیوں کے بنائے ہوئے طریقے ہیں۔ ایسی تعداد کی حد بندی شریعت کے خلاف بدعت (نیا ایجاد کیا ہوا طریقہ) شمار ہوتی ہے۔ ہاں، کچھ روایات ہیں جن میں صبح و شام میں 10 یا 100 مرتبہ درود پڑھنے کا ذکر ملتا ہے، لیکن یہ تعداد تعین شریعت میں نہیں ہے۔
عبادت یا ذکر و اذکار کو بغیر کسی شرعی دلیل کے کسی جگہ، وقت، یا کیفیت کے ساتھ مقرر کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اگرچہ یہ اعمال اچھے ہیں، لیکن وہ بدعت اور گناہ میں شمار ہوں گے، جیسا کہ کئی روایات میں موجود ہے۔ اچھے اعمال ہونے کے باوجود بھی انہیں روکا گیا ہے۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے اس Link ko visit کریں!
یہ جاننا ضروری ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے چاہے لوگ اسے اچھا ہی سمجھتے ہوں۔ بلکہ بدعت تو ابلیس کو معصیت (گناہ) اور نافرمانی سے بھی زیادہ محبوب ہے کیونکہ اس سے توبہ نہیں کی جا سکتی۔ جو شخص بدعتی عمل کو نیکی سمجھ کر کرتا ہے، وہ توبہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
امام مالک رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے
"جس نے دین اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی اور وہ اسے اچھا سمجھتا ہو، تو اس نے یہ گمان کیا کہ (نعوذ باللہ) محمد ﷺ نے رسالت میں خیانت کی ہے۔"
کیا نبی کریم ﷺ نے اس خیر اور بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے میں (نعوذ باللہ) کوئی کوتاہی کی؟ حالانکہ رسول کریم ﷺ تو سب لوگوں سے زیادہ اپنی امت پر حریص تھے اور ان سے بھی زیادہ ان پر رحم کرنے والے تھے۔
اور پھر رسول کریم ﷺ نے ابو بن کعب رضی اللہ عنہ کو اس مخصوص عدد کی طرف رہنمائی کیوں نہ فرمائی؟ جیسا کہ اوپر حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ بہت سے صوفی حضرات اس قسم کی تحدید میں خوابوں پر اعتماد کرتے ہیں، یا پھر مجرد اختراع اور ایجاد پر، اور اپنے مریدوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ اس سے زیادہ کرنا صحیح نہیں، کیونکہ زیادہ کرنے کے لیے پیر اور بزرگ کی اجازت ضروری ہے جو اس کے حالات پر مطلع ہے، بلکہ وہ اس کے پوشیدہ حالات کو بھی جانتا ہے، اس کے علاوہ اور باتیں اور باطل قسم کی اشیاء بھی جن کے ذریعے یہ لوگ اپنے پیروکاروں پر تسلط جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور اس بدعتی شخص کے بارے میں خطرہ ہے کہ کہیں یہ اپنے اعمال ہی ضائع نہ کر بیٹھے، اور اس کی ساری نیکیاں تباہ نہ ہو جائیں، اور اپنی عبادت کا اسے کوئی اچھا نتیجہ نہ ملے، خاص طور پر جب وہ اس بدعت کو امید سے اور جان بوجھ کر کرے اور علم و بصیرت حاصل نہ کرے۔
کیونکہ رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے: "جس کسی نے بھی ہمارے اس دین میں کوئی ایسا عمل ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے۔" [صحیح بخاری حدیث نمبر (2697) (1718)]
اس لیے آپ دیکھیں گے کہ اس طرح کے اکثر لوگوں پر ذکر کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے معاملات میں، اور نہ ہی ان کی حالتوں میں کوئی تبدیلی آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مشروع اور مسنون اذکار اور دعاؤں میں کمی اور کوتاہی کا شکار ہوتے ہیں، جن میں شریعت میں حد متعین کر رکھی ہے۔ مثال کے طور پر: "سبحان اللہ و بحمدہ سو بار صبح اور شام کہنا۔"
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے جو کہ دارمی نے عمرو بن سلمہ سے روایت کی ہے، جسے ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں:
عمرو بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ ہم صبح کی نماز سے پہلے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بیٹھ جاتے اور جب وہ باہر نکلتے تو ہم ان کے ساتھ مسجد چل پڑتے۔ ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ آئے اور پوچھا: کیا ابو عبدالرحمن باہر آئے ہیں؟ تو ہم نے کہا نہیں، تو وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ جب وہ باہر نکلے تو ہم سب اٹھ کر چل پڑے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے عرض کرنے لگے: اے ابو عبدالرحمن، میں نے ابھی ابھی مسجد میں ایک کام دیکھا جو مجھے اچھا نہیں لگا، اور الحمدللہ وہ اچھا ہی معلوم ہوتا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: وہ کیا؟
تو ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم زندہ رہو گے تو دیکھو گے، وہ بیان کرنے لگے:
میں نے مسجد میں لوگوں کو نماز کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا کہ وہ حلقے بنا کر بیٹھے ہیں اور ہر حلقے میں لوگوں کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں۔ ایک شخص کہہ رہا تھا: سو بار تکبیر کہو، تو وہ سو بار اللہ اکبر کہتے، پھر وہ کہہ رہا تھا: سو بار لا الہ الا اللہ کہو، تو وہ سو بار لا الہ الا اللہ کہتے، پھر وہ کہہ رہا تھا: سو بار سبحان اللہ کہو، تو وہ سو بار سبحان اللہ کہتے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر آپ نے انہیں کیا کہا؟
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں نے انہیں کچھ نہیں کہا، میں آپ کی رائے اور حکم کا انتظار کر رہا تھا۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے انہیں یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ وہ اپنی برائیاں گنیں اور انہیں یہ ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی؟
پھر وہ چل پڑے اور ہم بھی ان کے ساتھ گئے، یہاں تک کہ وہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس پہنچے اور فرمایا: یہ تم کیا کر رہے ہو؟
انہوں نے جواب دیا: اے ابو عبدالرحمن، ہم کنکریوں پر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، اور سبحان اللہ پڑھ کر گن رہے ہیں۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم اپنی برائیوں کا شمار کرو، میں تمہاری نیکیوں کا ضامن ہوں، وہ ضائع نہیں ہوں گی۔ اے امت محمد ﷺ افسوس ہے تم پر، تم کتنی جلدی ہلاکت میں مبتلا ہو گئے ہو۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ تمہارے پاس کتنی بڑی تعداد میں ہیں، اور ابھی تک نبی کریم ﷺ کے کپڑے بھی بوسیدہ نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کے برتن ٹوٹے ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کیا تم ایسی امت پر ہو جو امت محمد ﷺ اور ان کے طریقے سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو، یا پھر تم گمراہی کے دروازے کھولنے والے ہو؟
انہوں نے جواب دیا: اے ابو عبدالرحمن، ہمارا ارادہ تو صرف خیر اور بھلإئی کا ہی ہے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اور کتنے ہی خیر اور بھلإئی کے ارادے رکھنے والے اس تک نہیں پہنچ پاتے۔
تو ہر خیر اور بھلإئی کا ارادہ رکھنے والا اسے حاصل نہیں کر سکتا، ہمیں رسول کریم ﷺ نے بتایا ہے کہ:
"کچھ لوگ قرآن مجید پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلقوں سے نیچے نہیں جائے گا۔"
اور اللہ کی قسم، مجھے نہیں لگتا کہ ان کی اکثریت تم میں سے ہو، یہ کہہ کر ابن مسعود رضی اللہ عنہ وہاں سے چل دیے، عمرو بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ان حلقوں میں بیٹھنے والے عام افراد کو نہروان کی لڑائی کے دن خوارج کے ساتھ دیکھا کہ وہ ہم پر طعنہ مار رہے تھے۔
[سنن دارمی، حدیث نمبر (204)]
Conclusion:
اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ Nabi Kareem ﷺ par darood padhna کس قدر اہمیت و فضیلت کا حامل ہے۔ درود پڑھنے کی اتنی بڑی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کے متعلق فرمایا ہے اور کئی ساری احادیث موجود ہیں۔ Nabi Kareem ﷺ par darood padhna آپ ﷺ سے محبت اور آپ کی شان و عظمت میں ادب اور احترام ظاہر کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
درود پڑھنے سے نہ صرف انسان کے گناہ معاف ہوتے ہیں بلکہ اللہ کے قریب ہونے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ احادیث میں ہے کہ جو شخص نبی ﷺ پر ایک بار درود پڑھتا ہے، اللہ اس پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے اور اس کے دس گناہ معاف ہوتے ہیں۔ اور قیامت کے دن درود پڑھنے والوں کو نبی ﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی۔
درود دعا کی قبولیت کا ذریعہ ہے۔ اس لیے اپنی دعاؤں میں درود ضرور شامل کریں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے پڑھنے سے دنیا اور آخرت دونوں جگہ کامیابی ہے۔اس لیے ہمیں درود کو اپنی زندگی اور روز مرہ کے اذکار کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ اللہ کی رحمت اور نبی ﷺ کی شفاعت حاصل ہو سکے۔
اور آخر میں یہ ضرور یاد رکھیں کہ درود پڑھنے کے لیے کوئی تعداد معین نہ کریں کیونکہ یہ عمل کہیں سے بھی ثابت نہیں! آپ جتنا چاہیں اتنا کثرت کے ساتھ درود پڑھیں! کیونکہ کثرت سے درود پڑھنے والا قیامت کے دن نبی ﷺ کے سب سے قریب ہوگا!
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like comment save share subscribe
Download pdf here Subah Shaam ke azkaar
FAQs:
سوال: درود کیا ہے؟
جواب: اپنے پیارے نبی کریم ﷺ پر رحمت اور سلامتی بھیجنا درود کہلاتا ہے۔
سوال: نبی ﷺ پر درود کیسے بھیجیں؟
جواب: جب صحابہ نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس طرح کہا کرو:
اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ
اللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ
سوال: درودِ ابراہیمی کیا ہے؟
جواب: درودِ ابراہیمی یہ ہے:
اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ
اللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ
سوال: درود پڑھنے سے کیا ہوتا ہے؟
جواب: درود پڑھنے سے درود پڑھنے والے پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے، اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اس کے جنت میں درجات بلند ہوتے ہیں اور قیامت کے دن نبی ﷺ کی شفاعت حاصل ہوگی!
سوال: کثرت سے درود پڑھنے کی کیا فضیلت ہے؟
جواب: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مجھ پر سب سے زیادہ یعنی کثرت سے درود بھیجنے والا شخص قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب ہوگا۔"
Please don't enter any spam link