Social media ek khatarnak Fitna
ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے، لیکن اسی ترقی نے بے شمار چیلنجز بھی پیدا کیے ہیں۔ آج Social media ek khatarnak Fitna اور ایک ایسی حقیقت بن چکا ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔ والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے محفوظ ہیں کیونکہ وہ گھر سے باہر نہیں جاتے، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اب فتنے دروازے سے نہیں، بلکہ موبائل فون کے ذریعے گھروں میں داخل ہوتے ہیں۔
📖 Table of Contents(👆Touch Here)
▼
یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں دوستی کے نام پر دھوکہ، محبت کے نام پر بلیک میلنگ، اور تفریح کے نام پر گناہ کی ترغیب دی جاتی ہے۔ نوجوان نسل، خاص طور پر لڑکیاں، اس جال میں سب سے زیادہ پھنستی جا رہی ہیں۔ والدین کو اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی کہ وہ اپنی اولاد کو سوشل میڈیا کے خطرات سے کیسے بچا سکتے ہیں۔
گھر کی حفاظت کے لیے ہم دروازے مضبوط بناتے ہیں، کھڑکیوں پر جالیاں لگاتے ہیں، دیواریں اونچی کرتے ہیں، تاکہ کوئی نقصان دہ چیز اندر نہ آسکے۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ فتنے اب دیواریں پھلانگ کر یا دروازے توڑ کر نہیں آتے، بلکہ جیب میں پڑے ایک چھوٹے سے موبائل فون کے ذریعے گھر کے اندر ہی نہیں، دل و دماغ میں بھی داخل ہو جاتے ہیں۔
Read This Also: Achhe Aur Bure amal
سوشل میڈیا – دو دھاری تلوار
سوشل میڈیا بلاشبہ معلومات، تفریح اور رابطے کا بہترین ذریعہ ہے، مگر یہ دو دھاری تلوار بھی ہے، جو صحیح استعمال نہ ہونے پر انسان کی زندگی تباہ کر سکتی ہے۔
- یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں اجنبی، نامحرم، اور دھوکہ باز لوگ صرف ایک کلک کی دوری پر ہوتے ہیں۔
- یہ وہ دنیا ہے جہاں جھوٹ، دھوکہ، اور فریب کو سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
- جہاں عزتوں کی نیلامی ہوتی ہے اور خاندانوں کی بربادی کا آغاز ہوتا ہے۔
- جہاں بچوں اور نوجوانوں کی معصومیت کو آہستہ آہستہ ختم کر کے انہیں گمراہی کی راہ پر ڈال دیا جاتا ہے۔
سب سے زیادہ متاثر کون؟
- اس خطرناک جال میں سب سے زیادہ وہ نوجوان اور بچے آ رہے ہیں جنہیں والدین نے سوشل میڈیا کی دنیا سے بچانے کے لیے کوئی شعور نہیں دیا۔
- وہ بیٹیاں جو کبھی گھر کی چار دیواری میں سب سے زیادہ محفوظ سمجھی جاتی تھیں، آج وہی سوشل میڈیا کے ذریعے شکاریوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔
- وہ بیٹے جو ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھے، آج فحاشی، گیمز کی لت، اور فضول دوستیوں میں اپنی زندگی ضائع کر رہے ہیں۔
ذمہ داری کس کی؟
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔" (بخاری و مسلم)
یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ والدین کی ذمہ داری صرف بچوں کو کھلانے پلانے اور بہترین لباس دینے تک محدود نہیں۔ انہیں اپنی اولاد کی اخلاقی، دینی اور عملی تربیت بھی کرنی ہے۔ اگر والدین نے یہ سمجھ لیا کہ ان کی ذمہ داری بس مادی ضروریات پوری کرنے تک ہے، تو وہ دن دور نہیں جب ان کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے برباد ہو جائیں گے، اور وہ کچھ نہیں کر سکیں گے۔
Read This Also: Umar ki shahzadi Ek soch badalne wali kahani
کیا کیا جائے؟
بچوں اور نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے نقصانات اور شیطانی جالوں سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اور سرپرست درج ذیل اقدامات کریں:
1. بچوں کو شعور دیں
انہیں سمجھائیں کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔سوشل میڈیا پر ملنے والے اکثر لوگ جھوٹے اور مکار ہوتے ہیں۔وہ صرف وقتی طور پر دل بہلانے آتے ہیں اور پھر رسوائی اور بربادی چھوڑ جاتے ہیں۔جعلی محبت، جھوٹے خواب، اور میٹھے الفاظ اکثر تباہی کا راستہ ہوتے ہیں۔
2. والدین خود محتاط رہیں
اگر والدین خود ہی موبائل اور سوشل میڈیا کے عادی ہوں گے، تو اولاد کیسے بچ سکے گی؟جب والدین ہر وقت موبائل میں مصروف ہوں گے تو بچے ان سے کیا سیکھیں گے؟
3. دینی تربیت پر توجہ دیں
قرآن اور حدیث کی روشنی میں بیٹیوں کو حیا، عزت اور پردے کی اہمیت سمجھائیں۔
بیٹوں کو غیرت اور کردار کی طاقت سکھائیں۔بچوں کو یہ احساس دلائیں کہ سچی خوشی اور عزت دین میں ہے، دنیا کی عارضی لذتوں میں نہیں۔
4. اعتماد کا رشتہ بنائیں
خوف کی دیواریں بیٹی کو والدین سے ہی دور نہ کر دیں۔ایسا نہ ہو کہ والدین کی سختی اور روک ٹوک کی وجہ سے وہ اپنے مسائل گھر میں شیئر کرنے کے بجائے باہر حل ڈھونڈنے لگے۔اس کے مسائل کو پیار اور حکمت سے سنیں اور حل کریں۔
5. کنٹرولڈ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال
بچوں کو موبائل اور انٹرنیٹ دیں، لیکن بغیر کسی نگرانی کے نہیں۔وقت مقرر کریں کہ وہ کب اور کتنی دیر تک موبائل استعمال کر سکتے ہیں۔والدین خود بھی بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، تاکہ وہ موبائل اور سوشل میڈیا کو اپنی زندگی کا سب کچھ نہ سمجھیں۔
Read This Also: Yaqeen Aur bharose me farq
حقیقی حفاظت کیا ہے؟
حفاظت صرف دروازے بند کرنے سے نہیں ہوتی، بلکہ دلوں میں تقویٰ اور اللہ کا خوف پیدا کرنے سے ہوتی ہے۔ اگر بیٹی کے دل میں حیا اور خوفِ الہیٰ ہوگا، تو کوئی بھی سوشل میڈیا کا فتنہ اسے بہکا نہیں سکے گا۔
اے والدین!اپنی بیٹیوں کو صرف چار دیواری میں قید مت کریں، بلکہ انہیں ایسا مضبوط بنائیں کہ وہ ہر فتنہ خود پہچان سکیں اور اس سے بچ سکیں۔اے باپ! حفاظت صرف دیواروں سے نہیں، دلوں سے بھی کی جاتی ہے۔
Conclusion:
Social media ek khatarnak Fitna اور ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے، لیکن یہ ہماری اخلاقی، سماجی اور دینی اقدار پر بھی اثر ڈال رہا ہے۔ اصل مسئلہ سوشل میڈیا نہیں، بلکہ اس کا غلط اور بے قابو استعمال ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم خود بھی محتاط رہیں اور اپنی نئی نسل کو بھی سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی پہلوؤں سے آگاہ کریں۔ بچوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ اصل حفاظت دیواروں سے نہیں، بلکہ دل میں اللہ کا خوف اور حیا پیدا کرنے سے ہوتی ہے۔ اگر والدین اور نوجوان سمجھداری کا مظاہرہ کریں، تو سوشل میڈیا دوستی اور سیکھنے کا ذریعہ بن سکتا ہے، نہ کہ بربادی کا سبب۔
اے والدین! اپنے بچوں کو صرف روک ٹوک سے نہیں، بلکہ محبت، تربیت اور شعور سے محفوظ کریں۔
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like | Comment | Save | Share | Subscribe
FAQs:
سوال 1: سوشل میڈیا کا سب سے بڑا نقصان کیا ہے؟
جواب: سوشل میڈیا کا سب سے بڑا نقصان وقت اور عزت کا ضیاع ہے۔ لوگ بغیر سوچے سمجھے اجنبیوں پر بھروسہ کر لیتے ہیں، جس کا نتیجہ دھوکہ، بلیک میلنگ، اور بعض اوقات عزت و وقار کی بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔
سوال 2: کیا سوشل میڈیا کا استعمال مکمل طور پر ترک کر دینا چاہیے؟
جواب: نہیں، سوشل میڈیا خود برا نہیں، بلکہ اس کا غلط استعمال نقصان دہ ہے۔ اگر اسے مثبت انداز میں استعمال کیا جائے، جیسے کہ تعلیم، کاروبار، اور اچھی معلومات کے لیے، تو یہ فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن غیر ضروری اور بے مقصد استعمال کو ترک کرنا ہی بہتر ہے۔
سوال 3: والدین اپنی اولاد کو سوشل میڈیا کے خطرات سے کیسے بچا سکتے ہیں؟
جواب: بچوں کو شعور دیں کہ سوشل میڈیا پر اجنبیوں پر بھروسہ کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
وقت مقرر کریں کہ بچے کب اور کتنی دیر کے لیے موبائل استعمال کریں گے۔
دینی تربیت دیں تاکہ وہ خود غلط اور صحیح میں فرق کر سکیں۔
اعتماد کا رشتہ قائم کریں تاکہ بچے اپنے مسائل والدین کے ساتھ شیئر کر سکیں۔
سوال 4: اگر کوئی لڑکی یا لڑکا سوشل میڈیا کے ذریعے کسی دھوکے کا شکار ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: سب سے پہلے گھبرانے کی بجائے والدین یا کسی قریبی فرد سے مدد لیں۔
اگر بلیک میلنگ ہو رہی ہے تو فوراً سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر رپورٹ کریں اور قانونی مدد حاصل کریں۔
کسی بھی اجنبی پر بھروسہ نہ کریں اور اپنی نجی معلومات شیئر کرنے سے گریز کریں۔
آئندہ کے لیے سبق حاصل کریں اور احتیاط سے سوشل میڈیا کا استعمال کریں۔
Please don't enter any spam link