Musalman Aur Naya Saal /مسلمان اور نیا سال
Musalman Aur Naya Saal : ایک اسلامی نقطہ نظر ،دنیا بھر میں ہر سال کے آغاز پر مختلف ثقافتوں اور معاشروں میں نئے سال کا جشن منایا جاتا ہے۔ یہ جشن مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے، جن میں آتشبازی، رقص، موسیقی، اور مختلف تقریبات شامل ہیں۔ لیکن ایک مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں، ہر عمل کو اللہ کی رضا کے مطابق ہونا چاہیے۔ دنیاوی تہواروں اور رسومات کے پیچھے اکثر ایسے عقائد اور اعمال ہوتے ہیں جو اسلام کے اصولوں سے متصادم ہیں۔ نئے سال کا جشن بھی ان میں سے ایک ہے،اس پوسٹ میں ہم Musalman Aur Naya Saal اور اس میں ہونے والے خرافات اور غیر شرعی اعمال پر اور اسلامی نقطہ نظر پر روشنی ڈالیں گے۔
Read This post in hindi: Musalman Aur Naya Saal
کُچّھ خوشیوں,کُچّھ غموں بھرا حال گیاکسی نے کیا خوب کہا ہے:ایک اور اینٹ گر گئی دیوارِ حیات سےنادان کہہ رہے ہیں نیا سال مبارک ہو
ہر ایک پریشانی کو ربّ میرا ٹال گیا
زندگی ملی ہے تو یونہی نہ گنواں محب
کر فکرِ عقبہ ,ایک اور سنہرا سال گیا
انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی ، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔
یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی دونوں معاملات میں ہو جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ“۔ (مشکاة المصابیح ۲/۴۴۱ کتاب الرقاق)
ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو (۱) اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے (۳) اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے (۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے (۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
آخرت کی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اسی دنیا کے اعمال پر منحصر ہے۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے:” وَأنْ لَیْسَ لِلإنْسَانِ إلاَّ مَاسَعٰی، وَأنَّ سَعْیَہ سَوْفَ یُرٰی، ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الأوْفیٰ“۔ (سورہٴ نجم، آیت/ ۳۹،۴۰،۴۱)
ترجمہ: اور ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی، اور بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
نئے سال کی حقیقت:
نیا سال ایک عیسوی کیلنڈر کا حصہ ہے، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے منسلک ہے۔ اسلامی کیلنڈر قمری نظام پر مبنی ہے، اور اس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے ہجری کیلنڈر زیادہ اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ ہمارے دینی معاملات، روزے، حج، اور دیگر عبادات کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔نئے سال کی تقریبات بنیادی طور پر مغربی تہذیب کا حصہ ہیں۔ یہ جشن عیسوی کیلنڈر کے آغاز پر منایا جاتا ہے، جو مسیحی عقائد اور تہذیب سے جڑا ہوا ہے۔ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دینی شناخت کو برقرار رکھیں اور کسی بھی غیر اسلامی رسم کو بلا سوچے سمجھے اپنانے سے گریز کریں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"من تشبه بقوم فهو منهم"
(جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ انہی میں سے ہے)۔(سنن ابوداؤد، حدیث 4031)
اس حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کو ایسی تقریبات سے دور رہنا چاہیے جو اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
نئے سال کی خرافات:
نئے سال کے جشن کے دوران کئی خرافات عام ہیں:آتشبازی اور فضول خرچی:
نئے سال کی رات آتشبازی کا خاص رجحان پایا جاتا ہے، جس کے منفی اثرات درج ذیل ہیں:ماحولیاتی نقصان: آتشبازی سے دھواں اور زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں، جو ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔مالی نقصان: یہ عمل فضول خرچی ہے، جو اسلام میں ممنوع ہے۔ذہنی سکون کا خاتمہ: آتشبازی سے شور اور بے سکونی پیدا ہوتی ہے، جو انسانوں اور جانوروں کے لیے نقصان دہ ہے۔نئے سال کے جشن میں آتشبازی پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، جو نہ صرف وسائل کا ضیاع ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بھی بنتا ہے۔
رات بھر بے مقصد جشن:
کئی لوگ رات بھر جاگ کر ناچ گانے اور بے مقصد سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں،جو نہ صرف وقت کا ضیاع ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی ہے۔ رات بھر جاگ کر موسیقی، رقص، اور دیگر غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونا اسلام کے اس اصول کے خلاف ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کا ہر لمحہ کارآمد اور نیک اعمال میں صرف کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:"ولا تبذر تبذيرا، إن المبذرين كانوا إخوان الشياطين"(اور فضول خرچی نہ کرو، بے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں)۔(سورۃ الإسراء: 26-27)
شراب نوشی اور غیر اخلاقی اعمال:
کچھ لوگ اس موقع پر حرام سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں، جیسے شراب نوشی اور دیگر غیر اخلاقی کام، جو کہ واضح طور پر شریعت کے خلاف ہیں۔جن چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اسی میں آج اکثریت ملوث ہے
نئے سال کی رات:
Musalman Aur Naya Saal |
مگر افسوس کہ آج کے کچھ مسلمان اسے جشن کے طور پر بڑے فخر سے مناتے ہیں۔اے اللہ! تُو ہر مسلمان بھائی بہن کو اس بے حیائی اور بے دینی والی رات میں گناہوں سے بچا۔اے اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ان کاموں سے محفوظ رکھ جو تیری ناراضگی کا سبب بنتے ہیں۔آمین۔
- یہ وہ رات ہے جس میں ہر وہ کام کیے جاتے ہیں جنہیں اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔
- اس رات کو جشن منانے سے پہلے ایک بار اپنی قبر کی اندھیری رات کو ضرور یاد کر لینا۔
- الٹی سیدھی حرکتیں کر کے، ناچ گانے کے ساتھ دیگر گناہ کر کے خوشیاں منائی جاتی ہیں۔
- 31 دسمبر کی یہ رات، جس میں شاید ہی کوئی گناہ ہو جو اس رات نہ کیا جاتا ہو۔
- یہ وہ رات ہے جس میں معصوم لڑکیوں کی عزت سے کھیلا جاتا ہے۔
- یہ وہ رات ہے جس میں کچھ لوگ پہلی بار شراب کو ہاتھ لگاتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔
- یہ وہ رات ہے جس میں جسم فروشی کے بازار اور زنا کے اڈے سجائے جاتے ہیں۔
- یہ وہ رات ہے جس میں بے حیائی اور بے شرمی کھلے عام کی جاتی ہے۔
کیا کریں نئے سال پر:
اپنی پہچان قائم رکھیں:
نئے سال کے جشن میں شریک ہونا ایک طرح سے غیر اسلامی رسموں کو اپنانے جیسا ہے. نبی کریم ﷺ نے ہمیں غیر قوموں کی نقل کرنے سے منع فرمایا ہے. نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جو شخص کسی قوم کی نقل کرتا ہے وہ اسی کا حصہ بن جاتا ہے . ابو داؤد.لہٰذا! آپ مسلمان ہیں اور اپنی پہچان کو برقرار رکھیں اور نبی کریم ﷺ کی نا فرمانی نہ کریں.
وقت کی قدر
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وقت کی قسم کھائی ہے:
"والعصر، إن الإنسان لفي خسر" (العصر: 1-2)
وقت ایک عظیم نعمت ہے اور اس کا ضیاع ایک مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔
فضول خرچی سے اجتناب:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"إن المبذرين كانوا إخوان الشياطين" (الإسراء: 27)
فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ آتشبازی اور غیر ضروری خرچ اس آیت کی خلاف ورزی ہے۔
حلال اور حرام کی تمیز:
ایک مسلمان کو ہر وقت یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور اس کا عمل اللہ کی رضا کے مطابق ہے یا نہیں۔ حرام سرگرمیوں میں ملوث ہونا ہمیں اللہ کے قریب کرنے کے بجائے اس کی ناراضگی کا باعث بنتا ہے۔
نئے سال کو مثبت انداز میں منائیں:
اگرچہ نئے سال کا جشن منانا اسلامی طور پر جائز نہیں، لیکن اس موقع کو مثبت انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے:خود احتسابی: اپنی پچھلی زندگی کا جائزہ لیں اور آنے والے وقت کے لیے بہتر ارادے کریں۔
نیک اعمال کا آغاز: قرآن کی تلاوت کریں، دعا کریں، اور اللہ سے ہدایت طلب کریں۔
غریبوں کی مدد: اپنے وسائل کو ضائع کرنے کے بجائے ضرورت مندوں کی مدد کریں۔اور یہ عمل صرف نئے سال پر ہی نہیں بلکہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہونا چاہیے
اسلامی تہذیب کو اپنانا:
اسلام ہمیں سادگی، شکرگزاری، اور مقصدیت کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک مسلمان کو دنیاوی تہواروں کی تقلید کرنے کے بجائے اپنی دینی شناخت کو مضبوط کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"أفضل الناس من طال عمره وحسن عمله"(سب سے بہترین انسان وہ ہے جس کی عمر طویل ہو اور اس کے اعمال اچھے ہوں)۔(ترمذی، حدیث 2330)
علماء کرام کے فتاویٰ:
نئے سال کی خرافات اور اسلامی اصولوں کے خلاف ہونے کے بارے میں کئی علماء کرام نے فتاویٰ جاری کیے ہیں۔ یہاں چند مشہور علماء کے اقوال درج کیے جا رہے ہیں:1. شیخ عبدالعزیز بن باز (رحمۃ اللہ علیہ)
سعودی عرب کے مشہور مفتی اعظم شیخ بن باز (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا:
"غیر مسلموں کے تہواروں اور رسومات میں شریک ہونا، چاہے وہ نئے سال کا جشن ہو یا کوئی اور موقع، مسلمانوں کے لیے حرام ہے۔ یہ نہ صرف ان کی تہذیب کو اپنانے کے مترادف ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف بھی ہے۔"
2. شیخ ابن عثیمین (رحمۃ اللہ علیہ)
شیخ ابن عثیمین نے نئے سال اور دیگر غیر اسلامی تہواروں کے بارے میں فرمایا:
"نئے سال کا جشن منانا یا اس میں کسی بھی طرح شریک ہونا اسلام میں حرام ہے۔ یہ اللہ کی شریعت اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے خلاف ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے دین اور شناخت پر قائم رہے۔"
(فتاویٰ ابن عثیمین، جلد 3)
3. امام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ)
امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب "اقتضاء الصراط المستقیم" میں لکھا:
"غیر مسلموں کی تہذیب اور ان کے تہواروں کو اپنانا اسلامی معاشرے کو کمزور کرتا ہے۔ یہ نہ صرف ان کے طور طریقوں کو ماننے جیسا ہے بلکہ ان کی نقالی مسلمانوں کی شناخت کو مٹانے کا سبب بنتی ہے۔"
4. دارالعلوم دیوبند (ہندوستان)
دارالعلوم دیوبند کے فتوے میں کہا گیا ہے:
"نئے سال کے جشن میں شریک ہونا یا اس موقع پر کسی طرح کی خوشی کا اظہار کرنا غیر اسلامی روایت کو اپنانے کے مترادف ہے۔ یہ فضول خرچی اور غیر محسوس طریقے سے دوسرے مذاہب کی نقل کرنے جیسا ہے، جو بالکل ناجائز ہے۔"
5. جمعیت علماء ہند
جمعیت علماء ہند کے علماء نے فرمایا:
"مسلمان کو چاہیے کہ وہ غیر مسلموں کے تہواروں اور رسومات سے مکمل طور پر الگ رہے۔ نئے سال کا جشن، جو عیسائی کیلنڈر پر مبنی ہے، ہماری اسلامی تہذیب اور شناخت کے خلاف ہے۔"
6. مفتی محمد شفیع (رحمۃ اللہ علیہ)
مفتی شفیع (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی کتاب "معارف الفقہ" میں لکھا:
"مسلمانوں کے لیے غیر اسلامی رسومات اور تہواروں میں شریک ہونا جائز نہیں ہے۔ یہ اسلامی تہذیب کے کمزور ہونے اور غیر مسلم کلچر کی حمایت کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔"
7. شیخ صالح الفوزان
شیخ صالح الفوزان نے فرمایا:
"نئے سال کا جشن منانا غیر مسلموں کی شناخت اور ان کی روایت کو اپنانے جیسا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایسے ہر موقع سے دور رہیں جو ان کے ایمان اور اسلامی تعلیمات کو کمزور کر سکتا ہے۔"
اہم نکتہ و نصیحت:
علماء کرام نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دین، تہذیب، اور شناخت پر فخر کرنا چاہیے۔ غیر اسلامی رسومات اور جشن میں شریک ہونا نہ صرف اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے بلکہ یہ مسلمانوں کو ان کی اصل سے بھی دور کر دیتا ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ علماء کی ان نصیحتوں کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں۔ نئے سال کے جشن سے اجتناب کرتے ہوئے اس موقع کو اللہ کی یاد، توبہ، اور نیک ارادوں کے ساتھ گزاریں۔ یہی اسلامی طرز عمل ہے.
Conclusion:
Musalman Aur Naya Saal مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق گزارے۔ نئے سال کے جشن کی خرافات میں شامل ہونے کے بجائے، اس وقت کو خود احتسابی، عبادت، اور نیک ارادے کرنے میں صرف کیا جائے۔یہ موقع ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دنیاوی زندگی عارضی ہے اور ہمیں اپنی آخرت کی تیاری کرنی چاہیے۔
ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک سچے مومن کو بےچین کر دیتا ہے، کیونکہ اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کی عمر آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ، اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو جائے، کچھ کر گزرنے کی خواہش اسے بےچین کر دیتی ہے۔ اس کے پاس وقت کم اور کام زیادہ ہوتا ہے۔
ہمارے لیے نیا سال صرف موج مستی کا وقت نہیں ہے، بلکہ گزرتے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحات کا صحیح استعمال کرنے کا عہد کرنے کا موقع ہے۔ یہ اپنے ارادوں کو دوبارہ مضبوط کرنے اور حوصلے بلند کرنے کا وقت ہے۔نئے سال کی خرافات اور غیر اسلامی روایات سے دور رہنا ہماری شناخت اور ایمان کا تقاضا ہے۔ یہ وقت ہمیں اللہ سے توبہ کرنے، اپنے ایمان کو مضبوط کرنے، اور نیکیوں کی راہ پر چلنے کا موقع دیتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے وقت، مال اور عزت کو فضول کاموں میں ضائع کرنے کے بجائے اسے اللہ کی راہ میں لگائیں۔ یہی اصل کامیابی ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی تہذیب اور اسلامی شناخت کو برقرار رکھیں۔ نئے سال کے موقع پر خوشی منانا حرام نہیں، لیکن اسے اسلامی انداز میں منانا ضروری ہے۔ غیر اسلامی رسومات کو اپنانے کے بجائے اللہ کی طرف رجوع کریں اور اپنی زندگی میں دین کی روشنی پھیلائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت عطا فرمائے اور ہمیں اپنی زندگی کو اس کے احکامات کے مطابق گزارنے کی توفیق دے۔ آمین۔
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like comment save share subscribe
Download pdf here Subah w Shaam ke azkaar
FAQs:
سوال 1: کیا نئے سال کا جشن منانا اسلام میں جائز ہے؟
جواب: اسلام میں ایسے تہوار منانا جائز نہیں جو غیر اسلامی عقائد یا رسوم سے جڑے ہوں۔ نئے سال کا جشن عیسوی کیلنڈر کے آغاز پر منایا جاتا ہے، جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"من تشبه بقوم فهو منهم"(جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ انہی میں سے ہے)۔
لہٰذا مسلمانوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
سوال 2: کیا آتشبازی کرنا اور اس پر پیسہ خرچ کرنا صحیح ہے؟
جواب: آتشبازی کرنا فضول خرچی اور وسائل کا ضیاع ہے، جو اسلام میں سختی سے منع ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:"إن المبذرين كانوا إخوان الشياطين"
(بے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں)۔(سورۃ الإسراء: 27)
آتشبازی سے نہ صرف مالی نقصان ہوتا ہے بلکہ یہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی سبب بنتی ہے۔
سوال 3: نئے سال کے موقع پر مسلمان کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: نئے سال کے موقع پر مسلمان کو خود احتسابی کرنی چاہیے، اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے، اور آئندہ کے لیے نیک ارادے کرنے چاہییں۔
سوال 4: کیا نئے سال کی تقریبات میں شرکت کرنا گناہ ہے؟
جواب: جی ہاں، نئے سال کی تقریبات میں شرکت کرنا گناہ کے زمرے میں آ سکتا ہے، کیونکہ ان تقریبات میں اکثر غیر اسلامی اور غیر اخلاقی سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں، جیسے موسیقی، ناچ گانا، شراب نوشی، اور آتشبازی۔ مسلمان کو ایسی محفلوں سے دور رہنا چاہیے تاکہ وہ اللہ کی ناراضگی سے بچ سکے۔
سوال 5: کیا غیر مسلم دوستوں کو نئے سال کی مبارکباد دینا جائز ہے؟
"من تشبه بقوم فهو منهم"(جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ انہی میں سے ہے)۔
لہٰذا مسلمانوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
سوال 2: کیا آتشبازی کرنا اور اس پر پیسہ خرچ کرنا صحیح ہے؟
جواب: آتشبازی کرنا فضول خرچی اور وسائل کا ضیاع ہے، جو اسلام میں سختی سے منع ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:"إن المبذرين كانوا إخوان الشياطين"
(بے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں)۔(سورۃ الإسراء: 27)
آتشبازی سے نہ صرف مالی نقصان ہوتا ہے بلکہ یہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی سبب بنتی ہے۔
سوال 3: نئے سال کے موقع پر مسلمان کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: نئے سال کے موقع پر مسلمان کو خود احتسابی کرنی چاہیے، اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے، اور آئندہ کے لیے نیک ارادے کرنے چاہییں۔
سوال 4: کیا نئے سال کی تقریبات میں شرکت کرنا گناہ ہے؟
جواب: جی ہاں، نئے سال کی تقریبات میں شرکت کرنا گناہ کے زمرے میں آ سکتا ہے، کیونکہ ان تقریبات میں اکثر غیر اسلامی اور غیر اخلاقی سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں، جیسے موسیقی، ناچ گانا، شراب نوشی، اور آتشبازی۔ مسلمان کو ایسی محفلوں سے دور رہنا چاہیے تاکہ وہ اللہ کی ناراضگی سے بچ سکے۔
سوال 5: کیا غیر مسلم دوستوں کو نئے سال کی مبارکباد دینا جائز ہے؟
جواب: اس معاملے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ کچھ علماء اسے غیر اسلامی رسومات کی حمایت سمجھتے ہیں اور منع کرتے ہیں، جبکہ کچھ اسے صرف سماجی تعلقات کا حصہ مانتے ہیں۔ تاہم، بہتر یہی ہے کہ مسلمان اپنی اسلامی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے ایسی مبارکباد سے گریز کریں۔
سوال 6: کیا اسلامی نقطہ نظر سے نئے سال کے جشن کو مثبت انداز میں منایا جا سکتا ہے؟
جواب: جی ہاں، اگر نئے سال کو جشن منانے کے بجائے خود احتسابی اور عبادت کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ ایک مثبت عمل ہو سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس موقع پر اللہ کا شکر ادا کریں، دعا کریں، اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
سوال 7: کیا مسلمان کو عیسوی کیلنڈر کو اہمیت دینی چاہیے؟
جواب: عیسوی کیلنڈر دنیاوی معاملات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن اسلامی معاملات اور عبادات کے لیے ہجری کیلنڈر کو اہمیت دینی چاہیے، کیونکہ یہ ہمارے دین کی بنیاد ہے اور اس سے ہماری عبادات اور اسلامی تہوار جڑے ہوئے ہیں۔
سوال 8: نئے سال کی تقریبات کے نقصانات کیا ہیں؟
جواب: نئے سال کی تقریبات کے نقصانات درج ذیل ہیں:
وقت اور پیسے کا ضیاع۔
غیر اخلاقی اور حرام سرگرمیوں میں ملوث ہونا۔
ماحولیاتی آلودگی۔
دین سے دوری اور غیر اسلامی ثقافت کی تقلید۔
سوال 6: کیا اسلامی نقطہ نظر سے نئے سال کے جشن کو مثبت انداز میں منایا جا سکتا ہے؟
جواب: جی ہاں، اگر نئے سال کو جشن منانے کے بجائے خود احتسابی اور عبادت کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ ایک مثبت عمل ہو سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس موقع پر اللہ کا شکر ادا کریں، دعا کریں، اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
سوال 7: کیا مسلمان کو عیسوی کیلنڈر کو اہمیت دینی چاہیے؟
جواب: عیسوی کیلنڈر دنیاوی معاملات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن اسلامی معاملات اور عبادات کے لیے ہجری کیلنڈر کو اہمیت دینی چاہیے، کیونکہ یہ ہمارے دین کی بنیاد ہے اور اس سے ہماری عبادات اور اسلامی تہوار جڑے ہوئے ہیں۔
سوال 8: نئے سال کی تقریبات کے نقصانات کیا ہیں؟
جواب: نئے سال کی تقریبات کے نقصانات درج ذیل ہیں:
وقت اور پیسے کا ضیاع۔
غیر اخلاقی اور حرام سرگرمیوں میں ملوث ہونا۔
ماحولیاتی آلودگی۔
دین سے دوری اور غیر اسلامی ثقافت کی تقلید۔
سوال 9: مسلمان کو وقت کی قدر کیوں کرنی چاہیے؟
جواب: اسلام میں وقت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وقت کی قسم کھائی ہے:
"والعصر، إن الإنسان لفي خسر" (زمانے کی قسم! بے شک انسان خسارے میں ہے)۔
(سورۃ العصر: 1-2)
مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہر لمحے کو نیک اعمال میں صرف کرے اور فضول سرگرمیوں سے اجتناب کرے۔
جواب: اسلام میں وقت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وقت کی قسم کھائی ہے:
"والعصر، إن الإنسان لفي خسر" (زمانے کی قسم! بے شک انسان خسارے میں ہے)۔
(سورۃ العصر: 1-2)
مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہر لمحے کو نیک اعمال میں صرف کرے اور فضول سرگرمیوں سے اجتناب کرے۔
سوال 10: کیا اسلامی تاریخ کا نیا سال منانا جائز ہے؟
جواب: اسلامی تاریخ (ہجری کیلنڈر) کے نئے سال یعنی محرم کے آغاز پر خوشی کا اظہار کرنا، نیک اعمال کا ارادہ کرنا اور اللہ سے دعا کرنا جائز ہے۔ لیکن اس میں بھی غیر اسلامی طریقوں جیسے فضول خرچی، ناچ گانے یا بے مقصد سرگرمیوں سے گریز کرنا چاہیے۔
Please don't enter any spam link