Allah ke paas maal jama Karna/ اللہ کے پاس مال جمع کرنا
یہ واقعہ ایک نہایت خوبصورت سبق اور نصیحت کا حامل ہے، جو ہمیں صدقہ و خیرات کی اہمیت اور انسانیت کی خدمت کے لیے اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔Allah ke paas maal jama Karna ہمارے لئے دُنیا اور آخرت دونوں جگہ فائدہ کا سامان ہے.
ایک غریب عورت کی عزت نفس، حکمت اور اندازِ گفتگو نے ایک مالدار شخص کے دل میں رحم اور سخاوت کو جگا دیا۔ اس عورت نے اس بات کو نہایت سلیقے سے بیان کیا کہ دنیا کا مال و دولت عارضی ہے اور اصل دولت وہی ہے جو قیامت کے دن کام آئے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو کچھ ہم اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، وہی ہمارے لیے آخرت میں جمع ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی ہے جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں، اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں، اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے۔ اور اللہ وسعت والا، علم والا ہے۔"(سورۃ البقرہ: 261)
اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہوا مال کئی گنا بڑھ کر انسان کو واپس ملتا ہے، اور یہ اصل کامیابی ہے۔
Read This Also: Sadqa karne ke fayede
سبق آموز واقعہ:
Allah ke paas maal jama Karna |
🤵♀️ ایک عورت اپنے شوہر کے تنگ حالات کی بنا پر ایک خوش حال آدمی کے گھر گئی اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک خادم باہر آیا اور اس سے پوچھا:
"تم کیا چاہتی ہو؟"
عورت نے کہا: "میں تمہارے مالک سے ملنا چاہتی ہوں۔"
خادم نے پوچھا: "تم کون ہو؟"
عورت نے کہا: "اسے بتاؤ کہ میں اس کی بہن ہوں۔"
خادم جانتا تھا کہ اس کے مالک کی کوئی بہن نہیں ہے، تو وہ اندر گیا اور اپنے مالک سے کہا:
"دروازے پر ایک عورت ہے جو دعویٰ کرتی ہے کہ وہ آپ کی بہن ہے۔"
مالک نے کہا: "اسے اندر لے آؤ۔"
عورت اندر آئی، مالک نے اسے خوش دلی سے استقبال کیا اور پوچھا: "تم میرے کس بھائی کی بہن ہو؟ اللہ تم پر رحم کرے۔"
عورت نے کہا: "میں آدم کی بیٹی ہوں۔"
خوشحال آدمی نے اپنے دل میں سوچا: "یہ عورت واقعی بے یارو مددگار ہے، میں پہلا شخص ہوں گا جو اس کی مدد کرے گا۔"
عورت نے کہا: "اے میرے بھائی، شاید آپ جیسے لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ غربت کا ذائقہ کتنا کڑوا ہوتا ہے۔ اسی غربت کی وجہ سے میں اپنے شوہر کے ساتھ طلاق کے دروازے پر کھڑی ہوں۔ کیا آپ کے پاس کچھ ہے جو آپ قیامت کے دن کے لیے دے سکیں؟ آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہو جائے گا، لیکن جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہے گا۔"
خوشحال آدمی نے کہا: "دوبارہ کہو۔"
عورت نے کہا: "اے میرے بھائی، شاید آپ جیسے لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ غربت کا ذائقہ کتنا کڑوا ہوتا ہے۔ اسی غربت کی وجہ سے میں اپنے شوہر کے ساتھ طلاق کے دروازے پر کھڑی ہوں۔ کیا آپ کے پاس کچھ ہے جو آپ قیامت کے دن کے لیے دے سکیں؟ آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہو جائے گا، لیکن جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہے گا۔"
خوشحال آدمی نے کہا: "دوبارہ کہو۔"
عورت نے تیسری بار کہا، پھر خوشحال آدمی نے چوتھی بار کہا: "دوبارہ کہو۔"
عورت نے کہا: "مجھے نہیں لگتا کہ آپ نے مجھے سمجھا ہے، اور دوبارہ کہنا میرے لیے ذلت ہے۔ میں نے کبھی اپنے آپ کو اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے ذلیل نہیں کیا۔"
خوشحال آدمی نے کہا: "اللہ کی قسم، مجھے تمہاری بات کی خوبصورتی پسند آئی۔ اگر تم ہزار بار بھی دہراتی تو میں ہر بار کے بدلے تمہیں ہزار درہم دیتا۔"
پھر اس نے اپنے خادموں سے کہا: "اسے دس اونٹ، دس اونٹنیاں، جتنی چاہے بھیڑیں، اور جتنا چاہے مال و دولت دے دو تاکہ ہم قیامت کے دن کے لیے کچھ کام کریں۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہوجائے گا، لیکن جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہے گا۔"
Read This Also: Jahannum se Aazad aankhen
اِس واقعہ سے سبق:
اِس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ:1. غرباء اور ضرورت مندوں کا خیال رکھیں: ان کی عزت نفس کو مجروح کیے بغیر ان کی مدد کریں۔
2. اللہ کی رضا کے لیے خرچ کریں: دنیاوی دولت عارضی ہے، لیکن جو اللہ کے لیے خرچ کیا جاتا ہے، وہ ہمیشہ باقی رہتا ہے۔
3. اپنے دل کو نرم رکھیں: جب آپ کو کسی کی ضرورت کا علم ہو تو اس کی مدد کرنے میں دیر نہ کریں۔
4. دوسروں کی بات کو غور سے سنیں: کبھی کبھی کسی کی بات یا انداز گفتگو آپ کے دل کو بدل سکتا ہے اور آپ کو اچھے کام کی طرف راغب کر سکتا ہے۔
یہ ایک ایسی سوچ اور عمل کی ترغیب دیتا ہے جو نہ صرف ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے بلکہ ہماری آخرت کے لیے بھی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس نیکی کے بدلے ہمیں آخرت میں بہترین انعام عطا کرے۔ آمین۔
Conclusion:
قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح ہے کہ جو مال ہم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یعنیAllah ke paas maal jama Karna نہ صرف آخرت میں ہمارا سرمایہ بنتا ہے بلکہ دنیا میں بھی برکت اور سکون کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اللہ ہمیں اپنے مال سے غریبوں، مسکینوں، اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو سکیں۔ آمین۔
اس پوسٹ میں ہر مالدار کے لئے سبق ہے۔
اللہ کے پاس اپنا مال جمع کروا لو ..
#عربی ترجمہ
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like comment save share subscribe
FAQs:
جواب: عورت نے حکمت سے کام لیتے ہوئے انسانیت کی بنیاد پر خود کو مالدار شخص کی بہن کہا، کیونکہ تمام انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں، اور اس طرح ہم سب ایک دوسرے کے بھائی بہن ہیں۔ یہ اس کی سمجھداری اور عزتِ نفس کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ تھا۔
سوال 2: عورت نے مالدار شخص سے کیا درخواست کی؟
جواب: عورت نے مالدار شخص سے درخواست کی کہ وہ اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرے، تاکہ وہ قیامت کے دن کے لیے اپنا مال اللہ کے پاس جمع کر سکے، کیونکہ دنیا کا مال عارضی ہے اور صرف وہی مال باقی رہے گا جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے گا۔
سوال 3: مالدار شخص نے عورت کی درخواست کو کتنی بار سننا پسند کیا اور کیوں؟
جواب: مالدار شخص نے عورت کی درخواست کو چار مرتبہ سننا پسند کیا، کیونکہ وہ اس کی بات کی خوبصورتی اور حکمت سے متاثر ہوا۔ اس نے اس بات کو اللہ کی نعمت اور نصیحت سمجھا۔
سوال 4: مالدار شخص نے عورت کی مدد کس طرح کی؟
جواب: مالدار شخص نے نہایت سخاوت سے عورت کو دس اونٹ، دس اونٹنیاں، بھیڑیں، اور جتنا مال و دولت چاہیے تھا، عطا کر دیا تاکہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنی زندگی بہتر طور پر گزار سکے۔
سوال 5: اس واقعے سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟
جواب: اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ:
1. ہمیں ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہیے، کیونکہ اللہ ہمیں اس کا اجر دے گا۔
2. صدقہ و خیرات آخرت کے لیے سرمایہ ہے۔
3. عزتِ نفس کو برقرار رکھتے ہوئے مدد مانگنا جائز ہے۔
4. مالدار لوگوں کو اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے، کیونکہ یہی مال قیامت کے دن کام آئے گا۔
سوال 6: قرآن و حدیث اس واقعے کی تعلیمات سے کیسے مطابقت رکھتے ہیں؟
جواب: قرآن و حدیث میں بارہا صدقہ و خیرات اور ضرورت مندوں کی مدد کی تاکید کی گئی ہے۔ جیسے سورۃ البقرہ (261) میں اللہ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں، وہ کئی گنا بڑھ کر واپس ملتا ہے۔ اسی طرح حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے (صحیح بخاری: 1417)۔
سوال 7: مالدار شخص کا یہ عمل اس کی آخرت پر کیسے اثر ڈالے گا؟
جواب: مالدار شخص کا یہ عمل قیامت کے دن اس کے لیے بھاری اجر کا سبب بنے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے، وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا بلکہ قیامت کے دن بڑھا چڑھا کر لوٹایا جائے گا (سورۃ التوبہ: 99)۔
سوال 8: اس واقعے میں عورت نے غربت کا کون سا پہلو بیان کیا؟
جواب: عورت نے غربت کی تلخی اور کڑواہٹ کو بیان کیا کہ وہ کس طرح انسان کی زندگی اور تعلقات پر منفی اثر ڈالتی ہے، اور اس نے اپنی بات کو انتہائی خوبصورتی سے اللہ کی رضا کی جانب موڑ دیا۔
سوال 2: عورت نے مالدار شخص سے کیا درخواست کی؟
جواب: عورت نے مالدار شخص سے درخواست کی کہ وہ اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرے، تاکہ وہ قیامت کے دن کے لیے اپنا مال اللہ کے پاس جمع کر سکے، کیونکہ دنیا کا مال عارضی ہے اور صرف وہی مال باقی رہے گا جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے گا۔
سوال 3: مالدار شخص نے عورت کی درخواست کو کتنی بار سننا پسند کیا اور کیوں؟
جواب: مالدار شخص نے عورت کی درخواست کو چار مرتبہ سننا پسند کیا، کیونکہ وہ اس کی بات کی خوبصورتی اور حکمت سے متاثر ہوا۔ اس نے اس بات کو اللہ کی نعمت اور نصیحت سمجھا۔
سوال 4: مالدار شخص نے عورت کی مدد کس طرح کی؟
جواب: مالدار شخص نے نہایت سخاوت سے عورت کو دس اونٹ، دس اونٹنیاں، بھیڑیں، اور جتنا مال و دولت چاہیے تھا، عطا کر دیا تاکہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنی زندگی بہتر طور پر گزار سکے۔
سوال 5: اس واقعے سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟
جواب: اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ:
1. ہمیں ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہیے، کیونکہ اللہ ہمیں اس کا اجر دے گا۔
2. صدقہ و خیرات آخرت کے لیے سرمایہ ہے۔
3. عزتِ نفس کو برقرار رکھتے ہوئے مدد مانگنا جائز ہے۔
4. مالدار لوگوں کو اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے، کیونکہ یہی مال قیامت کے دن کام آئے گا۔
سوال 6: قرآن و حدیث اس واقعے کی تعلیمات سے کیسے مطابقت رکھتے ہیں؟
جواب: قرآن و حدیث میں بارہا صدقہ و خیرات اور ضرورت مندوں کی مدد کی تاکید کی گئی ہے۔ جیسے سورۃ البقرہ (261) میں اللہ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں، وہ کئی گنا بڑھ کر واپس ملتا ہے۔ اسی طرح حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے (صحیح بخاری: 1417)۔
سوال 7: مالدار شخص کا یہ عمل اس کی آخرت پر کیسے اثر ڈالے گا؟
جواب: مالدار شخص کا یہ عمل قیامت کے دن اس کے لیے بھاری اجر کا سبب بنے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے، وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا بلکہ قیامت کے دن بڑھا چڑھا کر لوٹایا جائے گا (سورۃ التوبہ: 99)۔
سوال 8: اس واقعے میں عورت نے غربت کا کون سا پہلو بیان کیا؟
جواب: عورت نے غربت کی تلخی اور کڑواہٹ کو بیان کیا کہ وہ کس طرح انسان کی زندگی اور تعلقات پر منفی اثر ڈالتی ہے، اور اس نے اپنی بات کو انتہائی خوبصورتی سے اللہ کی رضا کی جانب موڑ دیا۔
┄┄┅┅✪❂✵✵❂✪┅┅┄┄۔
*📚Kalaam e Hikmat @mz📚*
┄┄┅┅✪❂✵✵❂✪┅┅┄┄۔
Please don't enter any spam link